Skip to content

133. ب اور "لا” کا کھیل!

مراقبے کی میم ساعتوں میں ، جو کہیں کوئی گنگنا رہا تھا، وہ کون تھا؟
کون تھا وہ جو ہستی کے ہر فریب میں ، مبتلا ہوا بھی تو آپ کی بلا سے!
یکایک حسرت موہانیؔ صاحب نے گِرہ لگائی؛
؎ کیا کام انہیں پرسش ارباب وفا سے
مرتا ہے تو مر جائے کوئی اُن کی بلا سے

ابھی اتنا کہنے کی دیر تھی کہ آپ مسکرائے اور موہانی صاحب سے کہنے لگے کہ “بلا” لفظ بذات بلا ہے۔ یعنی،” ب “اور “لا “ہے !اور اصواتی آہنگ میں کتنی ہی چیزوں کو “بلا” کہہ دیتے ہیں ۔ البتہ لغت کے مفاہیم میں درج ہے کہ بَلہ/بَلے کا معانی ایسا کوئی بھی آلہ جس سے کسی گیند کو یا کسی بھی چیز کو ٹوکر مارنے کے لیے استعمال کیا جائے اور تحریکِ انصاف کا انتخابی نشان بھی بلا ہے۔ مگر اِسی لفظ کو کِسریٰ یعنی زیر کے حرفِ ب کے ساتھ پڑھیں گے تو ایک پالتو جانور ”بلی” کے بڑے ابو، بِّلا صاحب کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔

جبکہ مندرجہ بالا عبارات میں استعمال ہونے والے محاورے “آپ کی بلا سے” میں ایک” تیسرا” معنی استعمال ہوا ہے۔ اِس تیسرے معنی کی بابت آپ فرمائے، کہ عربی کے لفظِ “جِنّ” کو جدید ترکیہ میں cin لکھتے ہیں اور لاطینی تہجی کے “سی” کو ، “جی” پڑھنے کی وجہ سے اِس لفظ کو “جن” پڑھتے ہیں ، اِس کے علاوہ ، جِنّوں کے متعلق ترک محاورے میں “جِن” کہے بغیر، “تین حرف” بھی بطور کنایہ کہا جاتا ہے ۔ جبکہ اہلِ زبان “لعنت” کا لفظ کہنے کی بجائے “چار حرف” بھیج دیتے ہیں ۔
یہ سارے لفظ اور اِن کے معانی ، آپ پوچھے ، کہاں سے ملتے ہیں؟
آہ صاحب!
جو لفاظی کے آسیب میں، مبتلا ہوا بھی تو ،
آپ کی” ادا” سے !
۔ ۔ ۔ ۔

ادائیں ! صدائیں !
ادائیں صدائیں ، بلائیں ہی بلائیں
آپ نےوظیفہ پسند کیا، دن میں ایک ہزار مرتبہ “ادائیں صدائیں” کا وظیفہ کرتے رہے۔ آپ دائیں طرف دیکھ کر فرماتے ، ادائیں ، اور بائیں طرف رُخ کرتے تو کہتے صدائیں ! اور کچھ دیر ایسا ہی کرتے رہے، کوئی اداوں پر مسکرا رہا تھا اور کوئی صداوں میں مبتلا تھا ۔ کوئی چِلا کر کہتا صدائیں .. اور کوئی ادائیں ادا کر رہا ہے الغرض محفل پر اداوں اور صداوں کا ایک سایہ سا ہو گیا تھا!
وہ سائے، آپ کے ہی تھے! ہم نے اعتراف کیا۔ اور میم کے مراقبے میں” ب “اور “لا” کو تیز تر کیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایّامِ طفلی ہیں اور ابؔا میاں کی طرف سے حالتِ اضطراب میں نکلے اور میاں شیر محمدؔ کے یہاں دربار شریف کو جا رہے ہیں۔ فرمائے کہ اُس صراطِ مستقیم پر ساؔجد فالودے والے کی دوکان عین چوک شیرِ ربّانیؔ میں واقع تھی، اور اُس دوپہر کی تیز دھوپ میں ساجد ، فالودہ جمائے بیٹھا ہے اور پیچھے چلتے ٹیپ ریکاڈر پر استاد نصرت فتح علی خان صاحبؔ فرما رہے ہیں ؛
؎ سایہ بھی ساتھ جب چھوڑ جائے ، ایسی ہے تنہائی!
سایہ تھا صاحب! آیا تھا صاحب! ادا اور بلا کے بین بین سے . . ہم نے دیکھا۔
تن کی تپتی تیز دھوپ میں جو فالودہ جما بیٹھے گا، وہی “ساجد” ہو گا! آپ نے پھر بتلایا، ساجد پر بھی سایہ تھا، تنہائی کا وہی سایہ جو ہر ساجد کی پیشانی پر ہوتا ہے۔ہم نے سرگوشی میں دُہرایا
ادائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدائیں،
ادائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدائیں
تنہائے کے سائے میں جب آدمی مبتلا ہو تو، الف ب سے” ب “اور “لا “ہو جائے !
اور جو نہ ہو سکے تو؟
وہ “لا” سے “بٰ” بن جائے !
ب اور لام
بے لگام!
بے دام!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے