Skip to content

132. "لگے کا” دھوکا

کیا کہیے!
اُس نظرِ مبین کے، آپ فرمائے کہ نفسِ عتیق کے پاس قلبِ سلیم کے ساتھ ساتھ نظرِ مبین کا ہونا بھی ضروری ہے .. کہ اِسی نظر سے وہ جاگتا ہے، اور جو بھی دیکھتا ہے اُسے جاگتا دیکھتا ہے.. ابھی آپ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ کہیں سے استاد شجاعت ؔ خان کی البم The Stillness of Sound سے آواز آئی؛
؎ جس شے پہ نظر ڈالی دھوکا سا لگے ہے
پیتل بھی چمتکا ہوا سونا سا لگے ہے

۔۔۔
لگے ہے ، لگے کا
۔۔۔
ہم “لگے ہے”، پر مرکز ہوئے تو قریب سے جگجیت فیض انور ؔصاحب کی غزل گاتے سنائی دیے ؛
؎ ہر ملاقات پہ محسوس یہی ہوتا ہے
مجھ سے کچھ تیری نظر پوچھ رہی ہو جیسے
راہ چلتے ہوئے اکثر یہ گماں ہوتا ہے
وہ نظر چھپ کے مجھے دیکھ رہی ہو جیسے

آپ سن کر فرمائے کہ اِن اشعار میں “جیسے” لگے ہے ، لگے ہے ! جی صاحب وہ چھپ کے دیکھتی نظر! وہ نظر نظرِ مبین دیکھی جو جس شے پر بھی مرتکز ہوئی اُس نے بہتات دیکھی! یعنی رات کی بات بہت بار دیکھی، بہترّ راتوں کی بات، بہتات دیکھی! دھوکوں کی بہتات میں ، دھکم پیل کی بارات تھی..نظرِ مبین جانتی ہے کہ یہ دھوکا “لگے” کا دھوکا ہے ! لگے کا دھکا ہے !
۔۔۔۔
لگا ہے، لگے گا
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے