
رفتار تیز تر ہو چکی تھی،
اور سفر؟ آپ فوراً سے پوچھا کیے ۔
؎ منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
آہ صاحب! وہ سفر جو منیر نیازی کے لیے “آہستہ آہستہ” تھا، ہمارے لیے تسلیم فاضلی کا “ رفتہ رفتہ” ہو گیا!
؎ رفتہ رفتہ وہ مری ہستی کا ساماں ہو گئے
پہلے جاں پھر جان جاں پھر جان جاناں ہو گئے
“جانِ جاناں”!؟. . . آپ استفسار کیے۔
جی صاحب! استفسار کیے
بہت پیار کیے . . .
اُسی پیار نے ہمیں اسیرِ غمِ ہجراں کر رکھا تھا، یہ اسیری ، جگر مراؔد آبادی کے اشعار کی اسیری تھی!
؎ اس نے اپنا بنا کے چھوڑدیا
کیا اسیری ہے‘ کیا رہائی ہے
ہجر سے شاد‘ وصل سے ناشاد
کیا طبیعت جگر نے پائی ہے
اُسی طبیعت کا پوچھا کیے ! ہم آپ سے بات کرنا چاہے تو الکتاب اسکول سسٹم کے حسنین مشتاؔق صاحب یاد آ گئے ، مکتبہِ دیوبند سے نہ صرف منسلک تھے ، ایک عالمِ دین کی صاحبزادی سے نکاح کر کے گھر داماد بن بیٹھے۔ یعنی معتقد ہوئے، منسلک ہوئے اور پھر مشترک بھی ہو گئے .. ایک روز ہمیں لاہور لِنک روڈ کے کنارے ایک بنگلہ میں یاد فرمایا۔ صاحب پہنچنے پر ، گھنٹی بجانے پر ایک مدت انتظار کروایا.. کیا دیکھتا ہوں کہ باغیچہ میں ٹہلتے ہوئے مولانا قاری محمد طیؔب قاسمی کا کتابچہ “غلط فہمیوں کا ازالہ” کو دہرا رہے ہیں ۔ ہاتھ میں تسبیح ہے اور اُجلے کُرتے پر عطر لگی ہے.. ہم جان لیے کہ غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن نہیں تھا!
فہمیوں کا ازالہ بھی
ممکن نہیں تھا!
اُس انتظار کا ازالہ جو کسی گفتار میں لاحق ہو جائے ، گفتار میں گرفتار کوئی طفلِ ناطق. . .
آپ فرمائے ، فہم کو کلمے سے سِوا نہ سمجھے!
نہ سمجھے صاحب ، اور یاد کرتے گئے ، آپ کے سنے کہے ہر ہر کلمے کو ،
جی ، مثلِ مشعل فیروزاں کیے، تاباں کیے !
ایسے میں حسنین مشتاؔق صاحب کی طرف سے یاد کروائی گئی ایک نظم جو ابا مؔیاں کی تاکید سے اسٹیج پر سنائی بھی گئی ، پیشِ خدمت ہے
پَرستارآنِ لَزّ و لات جب مشقیں ذیؔد کی کس کر
اُس اسلام کے شیدا کو مقتل کی طرف لائے
قریش اپنے جلے تن کے پھپھولے پھوڑنے لگے
اور گھروں سے رقصِ بسمل کا تماشا دیکھنے کو آئے
جبینِ ذؔید پر اُس وقت وہ رونقیں برستی تھیں
کہ صبحِ اوّلین کے نور کی بارش بھی شرمائے
یہ اطمینانِ خاطر دیکھ کر کفر اور جھِلّایا
دِلوں کی تِیرگی نے بدر کے داغ اور بھی چمکائے
یہ سب دیکھ کر ابوسُفؔیان پکارا، کیا ہی اچھا ہوتا اگر
تیرے بدلے محمد کو یہ جلاد خاک و خون میں تڑپائے
تڑپ جاتا ہوں جب مجھ کو وہ جملے یاد آتے ہیں
جو وقتِ ذبحہ اُس عاشق نے تھے اِس طرح دہرائے
مجھے ہو ناز اپنی قسمت پر اگر نامِ محمد ﷺ پر
میرا یہ سر کٹ جائے اور تیرا سرِ پا اُس کو ٹھکرائے
یہ سب کچھ ہے گوارا مگر یہ دیکھا جا نہیں سکتا
کہ اُن کے پیروں کے تلوں میں اِک کانٹا بھی چب جائے
ابا میاں کئی ہفتوں اِس کو پڑھنے کا اور سننے کا اشتیاق فرماتے رہے۔ مگر ہمیں اِن اشعار کا مافی ضمیر اور اِس میں موجود لفظوں سے اعتراض رہا ، پہلے تو ہم کہے کہ ہم نامِ والی نہیں لیں گے،اور اگر اسمِ ذات کہیں گے تو درود شریف بھی پڑھیں گے ۔ مگر حسنین صاحب عروض جانتے تھے ہمیں سمجھائے کہ اسٹیج پر پڑھتے ہوئے دقت کا سامنا نہیں ہوگا۔ آج سوچتا ہوں کہ یاداشت کیا شے ہے، پچیس برس کے بعد بھی اُس کے دیے اسباق . . . دہرا رہا ہوں !
گرفتار ہوں !
گرفتارِ گفتار و رفتار
؎ ہیں گرفتار وفا زنداں سے گھبراویں گے کیا