Skip to content

129۔ میم کا مسئلہ نمبر چار

م مدتوں کی مہلتیں تھیں ، آج مہلت ملی تو آپ میم آئے !
مہلت! فرصت!. . . سے آپ دوہرائے ، بتانے لگے ؛ کہ ایک مرتبہ تایا م، ابا کے ساتھ باغیچے میں ٹہل رہے تھے تو اُنہوں نے فیضؔ کا یہ شعر رو بہ رو کیا؛
؎ اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

ہم سُنتے ہی حفظ کر لیے !
جی صاحب! دیار دیار پھرتا ، کون و مکاں میں ٹہلتا ، جو ، بے نوا تھا، وہ بے نوا کیوں تھا؟ ہم پوچھا کیے۔
آپ فرمائے کہ یہ فرصتِ گناہ اُسی کو دی گئی تھی جو شبِ غم گزار رہا تھا، کہیں دور جا رہا تھا، وہ دور جانے والا، وقت کے آسیب سے رہائی چاہتا تھا۔ جانتا تھا کہ وقت کے آسیب تلے پھلنے پھولنے والی ہر آفت ، ایک مہلت ہی تو ہے۔ آوازوں کے فریب میں جو نویٰ ہو تو کیوں کر! جزا ہو تو کیوں کر؟
اور اگر، ہو تو؟ آپ نے فوراً سے پوچھا!
صاحب! بے نویٰ کو ، نویٰ، لکھا گئے اور بے سے لکھا کیے ! ہم یہی جان پائے ہیں کہ بے نوا ، ب کی نویٰ تھی!
۔ ۔ ۔
آپ فرمائے کہ فرصتیں ہو یا مہلتیں، یعنی مصیبتیں ہوں یا مسرتیں .. اُن کا ہونا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ اُن کا چار ہونا ہے! چار دن کا ہونا ہے ! آہ صاحب! چار دن کی چاندنی کو خدائے لم یزل بڑھاتا گھٹاتا رہتا ہے ، فرمایا مومن کے رزق کی مقدار بھی آفاقی دائروں پر محیط ہیں .. آپ نے ایسے دیکھا جیسے فرماتے ہوں کہ “محیط” پر غور کا کہتے ہیں۔ ہم ، میم محیط سے مدت، عدت، مورت اور صورت بھی میم سے ہی لکھتے گئے .. ہر ہر اسم میں چھپی میم دیکھنے لگے تھے صاحب!
آہ صاحب، فرمائے پیغمبرِ حجاز سے منقولات میں ایک قول درج ہے؛
؎ مومن کے لیے یہ دنیا قید خانہ ہے!
فرمائے ابا میاں کی بدولت ہم ایامِ طفلی میں ہی قیدِ حیات کو سمجھ گئے تھے اور یہ بھی کہ
؎ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں ؟
غالبؔ کے اِس سوال کے جواب میں ،آہ! صاحب!
وہ بے نوا،
ہوتا رہا تھا صاحب!
انہی صحفِ عتیق سے اُنہیں “مومن” ہونے کی تصدیق ملی تھی..

اب لفظِ مومن کے معنیٰ کی تلاش میں چل رہے تھے کہ تایا میاں نے مومن خاں مومنؔ کا شعر ارشاد فرمایا؛
؎ شب جو مسجد میں جا پھنسے مومنؔ
رات کاٹی خدا خدا کر کے

پھر ہمیں تاکید کی کہ یہاں “مومن” سے مراد کوئی اور “مومن” بھی ہو سکتا ہے۔ ہم ترنت سمجھ گئے کہ جیسے مومنؔ مسجد میں پھنسے، مومن ہی دنیا میں پھنستا ہے اور یہ حالتِ حبس ہی قید خانہ ہے ! اور اِس قید سے رہائی کا سدِ باب یہی ہے کہ “خدا خدا “ کی جائے !
؎ دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو

یہ دنیا وہی گوشہ تنہائی ہے!
۔۔۔
نوٹ : ابجد درست کیے جائیں ، عدت میم سے نہیں ہوتی۔ تو میم کی کیوں عدت ہوتی ہے؟ عدت کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے میم کا مسئلہ نمبر تین  کا مطالعہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے