
؎میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
وہ دوا کیا ہوگی صاحب؟ وہ دعا کیا تھی صاحب؟ اُس دوا میں کہیں کوئی نقطے کا دغا تو نہیں تھا؟ جس سے آدمی “محرم” کو” مجرم” بنا ڈا لے؟ کیا “ میؔر سی سادگی” اِسی کو کہیں گے کہ “محرم” و “ مجرم” میں امتیاز گم ہو جائے؟
آہ صاحب! اِنہی اشعار کی گم گشتہ وادیوں میں جو شاعر سرگرداں رہے تھے، آپ فرمائے اِک مدت ہم بھی اُنہی وادیوں میں کوہ ناپتے رہے ، اور ہر مصرعے کی ساخت کو بہ غور دیکھے !
فرمائے کہ وہ کردار جو یاداشتوں سے حذف ہو چکے ہیں ، اُن کے بارے کچھ بتائیے !
.. .
کیا کوفہ و بصرہ کے بازاروں میں ہونے والے فلسفیانہ مباحثوں کے کردار تابندہ نہیں تھے؟ کیا مکالماتِ افلاطون کے وہ مجروح و مذموم افراد چلتے نہیں تھے؟ آپ پوچھا کیے۔
ہم اُنہی کرداروں کو عمر بھر تلاشتے رہے ..حاتم طائیؔ کے سات سوالوں کی طرح ، ہر ہر تان کی بُنت کو میلوں چلے صاحب ! اب کہ بانکپن ہے اور اپنے شیخ کی زیارت کو جاتے ہیں ، پا پیادہ ہیں اور تین کوس چل لیے ، سامنے سے ابا میاں آتے دِکھائی دیے۔ ہمیں حالتِ جذب میں دیکھے تو پوچھے منزل کہاں ہے؟ آہ صاحب! کہے شیخ کی زیارت کا قصد کیے ہیں اور پیدل جاتے ہیں ۔ آپ کہے بیٹھیے، ہم چھوڑ آتے ہیں .. نہیں گئے صاحب ، ہم پیدل ہی چلے ، اور چلتے ہی گئے .. اُن بستیوں سے جہاں الہاموں کی بازگشت تھی.. ہم دھیان دیے .. بیٹھا کیے ۔
دیکھتے رہے اُن نقطہ نگاروں کو جو تاریخ میں ایک جملہ کہے حروف کی سیاہی میں روپوش ہو گئے .. ۔ “وہ گھیانی کون تھے؟” آپ پوچھا کیے ۔
فرمائے کہ ایک مرتبہ امام حسن ؔبصری بارش کے بعد بازار سے گزر رہے تھے اور کیچڑ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو پھسلن کا سامنا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ ایک ہیجڑا پھسلنے لگا ہے، آپ نے کہا “دھیان سے”،
وہ مخنث، آہ صاحب! حاضر دماغ تھا ، ترنت بولا، کہ ائے امامِ زمن، میں تو ایک ‘چ’ کا چھکا ہوں! پھسل بھی گیا تو کیا ہوگا، آپ تو امام المتصوفین ہیں ، آپ پھسلے تو امت پھسل جائے گی!
آہ صاحب! اُس ‘چ’ کے چھکے کا کیا کہنا، ایسے جملے ادا کرنے والے وہ لوگ کہاں چلے گئے؟
فرمائے خود کو کتنی ہی بار ہم نے وہی ذات محسوس کیا
؎ اِک ذات ہے موجود کوئی غیر نہیں ہے
کیا کام مجھے اپنی فنا اور بقا سے ..
۔۔
فرمائے ہم اِک مدت دربارِ موجِ ؔدریا پہ خاکروب رہے ، وہیں میم مراقبے میں مگن ہیں کہ خود کو جنید و حجام میں مبتلا پاتے ہیں ۔
آپ نے جنابِ جنید بغدادی کے اخلاص پرور حجام کی حکایت پیش کی ؛ پھر فرمائے اب کہ حجامت کو جب بھی گئے ، وہی حجامِ جنیدؔ نظر آ یا.. وہ اخلاص بھری نگاہیں وہ ہماری پیشانی پر جو بوسہ دیا تو وہ بوسہ بغداد کی ب کا ہی تھا۔ ہم جان گئے کہ وہ اخلاس، و ہ محبت، اگر آپ کی نہیں تھی تو اور کس کی تھی؟
ہر حجام، آدمی کی نبض جانتا ہے صاحب، جانتا ہے کہ کھڑا ہونے والا، بیٹھنے والا اور لیٹنے والا، ایک ہی طرح کی تخریب کا شکار ہے … ہم اتنا ہی کہے تھے کہ آپ بے تابی سے بغل گیر ہو گئے، اور ہم سے لپٹ کر رونے لگے.. ، آہ صاحب!
جنید کا بغداد
بغداد کا حجام
جنیدِ حجام!
و السلام