Skip to content

126: شور کا سناٹا!

آہ صاحب! دل بھلا کسی اور کو کیوں سَتاتا! ہم کہے ، سننے والا بھلا کسی کو کیا سناتا!
آپ پوچھے حال سُنائیے!
ہم خاموش ہو گئے..
؎ کس کو سناؤں حال دل بے قرار کا
ملتا نہیں ہے کوئی بشر اعتبار کا!

اِسی پر عالم پناہؔ نے پھر گرہ لگائی ، فرمائے؛
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں

۔ ۔
تو صاحب اِس عالمِ ناپائیدار میں کسی بشر کی ب کو قرار آ جائے ! ب سے "با” کے مرحلے ہیں، ہم بیت رہے ہیں۔
آپ کہے بیت رہے ہیں تو بیتنا بھی ب سے ہی ہوگا! ب سے ہی تھا صاحب، ب کا بیتنا! آپ پوچھے، کیسا ہوگا ب کا بیتنا، بیت جانا؟
ہم عرض کیے ، جو “موجود” میں اور “حروف “ میں دوئی نہیں چاہتا! جو تصویر اور آواز کو ایک سا بے رنگ، بے رحم دیکھے !
آہ صاحب! ب کے ہی رنگ دیکھے! ب سے دیکھا تو دیکھی رنگین دنیا!
بصرہ و بغداد سے چلنے والا بنجارہ ، ب بَون میں بیٹھا ہے اور آپ سمجھ گئے کہ ب سے ہی بیٹھا ہے۔
۔۔۔
جو زمانوں کی سات چالوں کو ایک ساتھ تواتر میں دیکھ لے، وہ کیا سن پائے؟ آپ استفسار کیے۔
وہ سُن پائے ہے صاحب!
شور کے سناٹے کو!
اب کہ آپ جرمنی کے شہر بِلے فیلڈ کی طرف عازمِ سفر ہیں ، اور فرماتے ہیں؛ ب سے بچھڑنے والا جو کبھی ملا ہوگا. . . تو،. .
ہم جھٹ سے کہے، ب سے ہی ملا ہوگا!
ب سے ملنے والا بھلا ، بچھڑ سکے گا؟
نہیں ، نہیں !
کبھی نہیں !
۔ ۔ ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے