آہ صاحب! واقعات کی چابک پر دوڑتا بدن کا گھوڑا!
آپ فوراً پوچھے ، کہاں جا رہا تھا؟
کہیں نہیں صاحب! جانا میسر ہی نہیں تھا! نظرِ ثمین ، نگاہِ وجود کو موجود پر دیکھی ! دیکھی تو جُود سے دیکھی! کہ خالقِ عالم نے انبوہ اقسام کی تخلیقات فرمائی ہیں .. اور سب میں سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں .. جی صاحب نشانیوں پر، نشانوں پر .. جو لپکے .. وہ بدن کے گھوڑے تھے صاحب!
کتنا دوڑے تھے صاحب!
ہونے کی تھکن سے چُور ہوئے گھوڑے .. ! آپ فرمائے اوائل عمری کے اشعار میں سے ابامیاں کا پڑھایا علاؔمہ کا یہ شعر یاد آ گیا ؛
؎ دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
اب کہ طارق عزیزؔ صاحب کا شو، نیلام گھر دیکھنے ابا میاں کے ساتھ جانا ہوا.. آہ صاحب! کتنی خواہش تھی اُنہیں کہ ہم بیعت بازی میں جیت کر آتے ! آپ صاحب چاہتے تو ہر ہر لفظ پر ، ہر ہر حرف پر بیسیوں اشعار سنا سکتے تھے۔ پھر فرمائے، نیلام گھر کو پنجابی لہجے میں “لیلام گھر” بھی سننے میں آیا ہے .. لِیلا رام کا گھر! “گھر” کی تکرار ہوئی تو آپ چاہتے تھے کہ “گھر” پر چند اشعار کہے جاتے۔ مگر ہم پھر پوچھا کیے کہ صاحب ! گھوڑوں کی بابت باب باندھ رہے تھے آپ..
آپ ہمیں ب سے دیکھے اور بات جاری رکھی۔ طارق عزیزؔ صاحب کے شَو میں بیت بازی کا مقابلہ دیکھنے آئے تھے ..
دال ایک .. دال دو!… ٹیم “بی” کی ٹیم میں بیٹھی، ایک بچی نے جلدی میں اِس شعر کو کچھ یُوں پڑھا؛
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں گھوڑا دیے دوڑے ہم نے !!
آہ صاحب! ایسی ہی گھوڑ دیکھی تھی ہم نے .. چاروں طرف گھوڑنے والے دوڑے !
آہ صاحب! دوڑے تو آپ ہی کی طرف .. گھوڑے بھی تو .. آپ ہی کی طرف !
آہ …
فرمائے-فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللہ- یعنی تم جس طرف بھی رُخ کرو پس وہاں خدا کا چہرہ ہے ..
ہمیں سرکار واصفؔ صاحب یاد آ گئے ؛
؎ مَن رآنی کا مدعا چہرہ
صورتِ حق کا آئینہ چہرہ
حُسنِ اتفاق دیکھیے کہ آپ کے مزار مبارک پر سہرا بھی اِسی کلام کا سجا ہے ۔ ہم چھُو کر بھی دیکھا کیے .. اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ فرمائے ؛
؎ ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو یا اغیار کی صورت
ہم نے لڑکپن کی ہر ہر کروٹ میں اِس شعر کا ورد کیا .. تو ہر دوڑتے میں گھوڑ اور ہر گھوڑے میں دوڑ کیوں نہ دیکھتے صاحب .. دور تک دوڑ ہی دوڑ .. اور ہی اور .. مور ہی مور! آہ صاحب! دوڑے تو آپ ہی کی طرف .. گھوڑے بھی تو .. آپ ہی کی طرف !
پھر فرمائے کہ موجودات کا منبع جس نے اپنے داہنے ہاتھ سے تھام رکھا ہے ، وہ جو کبھی بہکا نہیں چُوکا نہیں ..اُس نے ب سے باندھ رکھا ہے ، اُسے اُونگھ نیند کی حاجت نہیں .. وہ حییٰ و القیوم ہے !
اُس کے گھوڑے ، دوڑے تو اُسی کی طرف لپکے ! اُسی کے ہو لیے !
گُھڑ دوڑ!