
کمال نے کتنی ہی مرتبہ کہا تھا کہ آپ یہ سارے واقعات رقم بند کرتے رہیں .. اِس سے لطف آئے گا… تب میں نے اُسے بتایا کہ میں گزشتہ بارہ برس سے متواتر لکھ رہا ہوں .. اور لکھنا نہیں چاہتا کہ یہ لکھت پڑھت اپنے آپ میں ایک بہت محنت طلب کام ہے ، اور لکھنا صرف دوسری بھاشا میں ہی نہیں ، اپنی زبان میں لکھنا بھی جوکھوں کا کام ہے بھئی!
پھر ہمیں کونسا کسی لکھے کی اُجرت ملتی ہے؟ تیسرا ہم کونسا اُجرت کے لیے لکھا کیے .. تو اگر ایسا ہے، تو لکھا ہوا کیوں کر لکھا کہلاوے گا؟ اگر اُسے کوئی پڑھنے والا ہی نہ ملے ! آہ! کیا کہتا ، خاموش ہو گیا۔ ایک مرتبہ رائؔن کنارے یہاں قریب ہی بیٹھے تھے، کہنے لگا آپ کو ناول نگاری کرنی چاہیے اُس طرز کا کچھ لکھیے ۔
خدا اُس بدھو کو سمجھائے کہ بھئی ! کہاں میں ، کہاں زبانِ معلیٰ کے داستان گو!
اِسی طرح جب ہم ٖ Fellowship retreat پر جرمنی کے شہر آخنؔ میں تین دن قیام کیے تو ایک سہ پہر میں نوید کِرمانیؔ (Navid Kermani)کو دعوت دی گئی تھی۔ اُنہوں نے اپنی نئی کتاب میں سے چند ایک اقتباسات پڑھ کر سنائے ، اب لطف اِس بات کا ہوا کہ اقتباس میں لاہور کا، اور میلہ شاہ جمال ؔ کی ایک شام کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔
میں پروگرام کے بعد اُن سے ملا اور پروفیسر کلاؔوس بھی وہیں تھے ۔ میں نے نوید کرمانی کا شکریہ ادا کیا اور اُنہیں بتایا کہ آپ کو سنتے ہوئے میں نے وہی ڈھول کی تھاپ اور وہی رقص اپنے اوپر محسوس کیا ہے، میرا تعلق اُسی شہر سے ہے اور ایسے مقامات پر اِنہی والہانہ کیفات میں میرا لڑکپن گزرا ہے .. اُنہوں نے اقتباسات کے بعد ہونے والے سوال و جواب میں اِس بارے توجہ دِلوائی کہ مسلمان خطوں میں جدید صنعت تو دور ، اپنی تاریخی اور مذہبی تمدن سے سنورنے والیے فنون کو بھی ناپید کر دیا ہے..
یہاں تک کہ القاہرہ کے گلی کوچوں سے آنے والی قرات اب کہیں سنائی نہیں دیتی.. وہ اپنی آپ بیتی سنا رہے تھے کہ جب سن اسّی میں وہ قاہرہ اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے سلسلے میں گئے تو بیسیوں مخارج کے ساتھ قرآنِ کریم کی خوش الحانی سماعتوں کی نذر ہوتی تھی۔
پھر اُنہیں سن پچانوے میں جانا ہوا تو جامعہ الازہر میں اپنے کسی ارادت مند کو اُنہوں نے کلامِ پاک سننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جو خود تفسیر کے پروفیسر اور حافظِ قرآن بھی تھے ، کہ ذرا ایسے حضرات سے ملوا دیں جو اُن کے لیے چند آیات پڑھ دیں تا کہ وہ اُنہیں ریکارڈ کر سکیں .. بتاتے ہوئے وہ کتنا افسوس کر رہے تھے .. کہنے لگے کہ مدیر نے یہاں وہاں فون گمائے اور میرے شدید اصرار پر وہ مجھے موٹر سائیکل پر کسی کے فلیٹ پر لے گئے وہاں ایک آدمی بے چارہ قاری ڈھونڈا انہوں نے .. کرمانی صاحب نے پوچھا کہ یہ کیا چکر ہے .. کہاں سے پڑھے ہو .. وہ کہنے لگا اب یہی ایک ہی اسٹینڈرڈ ہے .. سب اِسی میں پڑھتے اور سیکھتے ہیں .. صرف پندرہ سالوں میں ایک عظیم الشان صنعت ناپید کر دی گئی ..
دورانِ ملاقات میں نے اُس بات کی طرف اشارہ کیا اور کہا ایسی درگاہیں ایسے گھٹن ذدہ ماحول میں آج بھی ایکlocus of resistance بن سکتی ہیں .. شاید اِنہی کی بدولت ہم اپنے living کو بچا سکیں ، آدمی سراپائے احتجاج ہو یا پیکرِ ثقافت بن جائے .. خیر اوّل سوال تو یہ ہے کہ شاذ قراءتیں، شاز ہوئیں کیوں کر؟ کیوں کر ایسی جملہ اصوات کو خاموش کر دیا گیا جن سے سخنِ کبریائی بیان ہوسکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ کسی ایک گروہ کے ہاتھ میں اقتدار آئے اور اُس طور سے وہ ایک مخصوص نظامِ دین و تمدن کی ترویج شروع کر دیں گے تو ایسا تو ہوگا۔ یعنی حکومت سے اردو نہیں “نافذ” کی جا رہی .. ادب صنعت کیا مارا پیٹی!
کتنی مایوسی تھی اُن آنکھوں میں ..
شاید کمال نے وہی اُداسی اور غریب الوطنی میری آنکھوں میں بھی دیکھی ہو، کہہ رہا تھا مجھے نہیں لگتا کہ آپ شوق سے تدریس جاری رکھیں گے آپ کا نوید کِرمانیؔ کی طرح کا مستقبل نظر آتا ہے .. آہ صاحب ! اردو کا قاری نہیں تو لکھاری کیا کرے گا .. اردو تو لکھیں گے مگر کھاوئیں گے کیا !!
نوید کِرمانیؔ صاحب کی باہر چھے کتابیں اسٹال پر لگی تھی .. کیسے للچائی آنکھوں سے دیکھے تھے اُن کتابوں کو.. جو ہم نے بھی لکھی تھیں .. آپ کے لیے ، خاموشی سے لکھیں تھیں ..
آپ بھی چپکے سے پڑھ لیجیے ..
قریبی بک اسٹال سے یا آن لائن آڈر کر لیں ..
کتاب کافی، نصاب شافی