
آپ کہے تالاب تھے ، ہم سمجھے آپ کے ہی ہیں .. سو چلے آئے
آب ہی آب، آپ ہی آپ .. اب کہ نوخیزی میں کروٹ لی ہے چچاجان کی معیت میں بازار شرقؔپور شریف سے نواؔں دروازہ کی طرف پیش قدمی ہے ، آپ ٹھہرے فرمائے ؛
؎ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کي يہ بات
تُو جھکا جب غير کے آگے ، نہ من تيرا نہ تن
ہم چونک گئے، ایک پانی پانی پر ، دوسرا، ہر انسانی حیوانی پر ہم چونک سے گئے .. ٹھہر ٹھہر کر دیکھنے لگے ہر مٹکتے آبخوروں کو ، غلمان و حوروں کو.. تو صاحب ساتھ میں الجزاؔئر کا ایک با شرع نوجوان ہے ، یعنی مسلمان ہے .. ہم نے سیاہ چشمے لگائے رکھے اور کہے ،
اور خوش خبری ہو اُن کے لیے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے اعمال کیے کہ اُن کے لیے صلہ ہے صلح رحمی کا اور اُنہیں وہ جنتیں ملیں گی کہ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گیں..
کہنے لگا یہاں پُول پر یہی معاملہ رہتا ہے ..
وہاں نتاؔلیہ کہنے لگی کہ میں آپ کو جان چکی ہوں ، آپ کیوں ہر مُورت میں نگارِ جاناں تلاشتے ہیں ، اور کوئی بھی انسان آپ کو مکمل نظر نہیں آتا! ہم نے سرگوشی میں کہا، “کیوں؟”
بس یہی آج کا سوال ہے نتالیہ اِس پر غور کرو! کہ اجسام بنتے بگڑتے کیوں ہیں ، بگاڑ اور نکھار میں کون کس پر کس قدر مقدم ہے؟ آج اِس کو سمجھنے کی کوشش کرو!
مگر میرے آقا، ہم انسان ہیں اور ہم میں کوئی بھی مکمل نہیں ہے، خاکم بہ دہن ! آپ بھی مکمل نہیں ہیں ! وہ مسکرا کر کہہ گئی!
ہم پھر یہی کہے ، “کیوں”؟
آپ یہ کیوں وِیوں مجھ سے نہ پوچھیں ! بنانے والے سے پُوچھیں ! انسان میں کجی کی خواہش سے ہی من کی سیدھ بندھی ہے ! اپنے سیاہ و سپید کو بھی بھید سمجھنا اور اِس معمہ حیات کو جانے بوجھنے بھی چہرہ فراغ رکھنا! کبھی نتالیہؔ کی صحبت میں ایسا محسوس ہوتا کہ میں وہاں کہیں نہیں ہوں ، یہ تو بس ابّا میاں ہیں جو اپنے شوق فرما رہے ہیں !
علمِ بشریات اور نفسیات کے مکرّم استاد ہاؔوف مان فرماتے ہیں کہ نفس کا اپنا کوئی وجود نہیں ، سیلف کہلائی جانے والی شئے ایک سراسر واہمہ ہے جسے ذہن تراشتا ہے کہ تعلق روا رکھ سکے .. ایک بیانیے کے آہنگ میں خود کو سمیٹ لے ! تو ہم ازل سے خود کو واہمہ سمجھے ! اِسی غزل کے دیگر اشعار پر غور فرمانے لگے ؛
اپنے من ميں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر ميرا نہيں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن
من کی دنيا ! من کی دنيا سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنيا! تن کی دنيا سُود و سودا ، مکّروفن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہيں
تن کی دولت چھاؤں ہے ، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
اور ابراہیم ؔذوق سے جی رِجھانے لگے !
ایسے میں شاہدرّہ کے ایّام سے راہ حقیقت کے اُستاد طاہر شاہ صاحب ، سمبن ؔ والی سرکار کا کہا یاد آ جاتا ہے، کہا کرتے، کلیاتِ اقبال کا ایک پوٹھوہاری زبان میں بھی منظوم ترجمہ ہونا چاہیے ، اور ساتھ ہی فرماتے، ایک ترجمہ میری طرف سے پیشِ خدمت ہے ؛
میرا نہیں بننا نہ بن، پین لن او! پنا تو بن !
من کی دولت اور من کی دنیا!
آج انہی کو کھوجیے !
اللہ حافظ
۔۔۔