Skip to content

120: خاموش سہارا

بے سہاروں کا سارا بھی خاموش ہی تھا۔ ہم یہی کہے کہ فراؔز صاحب نے پوچھا؛
؎ خاموش ہو کیوں داد جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے ؟

بسمل!
آہ !
ب کے بسمل تھے صاحب! دعا ہی دیے ، دغا ہی دیے! دعائیں تو کیں لیکن اُن میں نقطے در آئے تھے !
خاموشی کے نقطے!
بے سہارے، بے شمارے . . ہم ٹٹولا کیے کہ بشیر بدر نے فرمایا؛
؎ احساس کی خوشبو کہاں آواز کے جگنو کہاں
خاموش یادوں کے سوا گھر میں رہا کچھ بھی نہیں

ہم سمجھ گئے کہ ؛
؎ خاموش سہاروں کے سِوا گھر میں کچھ رہا ہی نہیں ..
؎ میرے کمرے میں سہاروں کے سِوا کچھ بھی نہیں

وہ خاموش سہارا کسی” اور” کا تھا! سہارا تو تھا .. آہ ، مگر خاموش تھا! کوئی خاموش سہارے کا کیا کرے؟
ہم سوچا کیے .. اُن خاموش خداوں کے بارے جن کے سامنے فریاد کرتے لوگ چل بسے تھے!
وہ خدا بھی خاموش سہارا ہی تھے ! وہ چارہ ساز، وہ غم غسار بھی..
جی صاحب! خاموش ہی تھا!
وہ غُن کی خاموشی!
وہ ب کی ہوشی!
کیا شے تھی صاحب؟
 ہم جان نہ سکے !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے