Skip to content

119: بُتِ عیار

آپ فرمائے کیا آج بھی کچھ کہے؟
نہیں صاحب! آج کہے کچھ نہیں آج صرف لکھے..
لکھا کیے ہر ہر سُود و زیاں کو، ہر آذرِ بت کداں کو
کہ وقت کی کروٹوں نے جو تراشا تھا، آپ منہمک ہوئے، وہ بت کس کا تھا؟
وہ بت، کوئی بتِ عیار ہی ہوگا! ہم نے ادب سے عرض کیا۔
؎ ہر لحظه بہ شکلِ بت عیار بر آمد
دل بُرد و نہان شد
ہر دم بہ لباس دِگر آن یار بر آمد
گہ پیر و جوان شد

جی صاحب بتِ عیار !
آپ نے کتنا پیار کیا، ہمیں نون آنکھوں سے دیکھا کیے اور بتلا گئے کہ ، ب سے ہی تھا، وہ” بُتِ عیار “، وہ بہ لباسِ دیگراں بھی .. ب سے ہی تھا.. آپ دیکھیے نہ صاحب، جس نے بھی لکھنا شروع کیا اُس نے تختی پر الف کھینچا..
میاں محمد بخش ؔ کو ہی دیکھ لیجیے ؛
؎ اوّل حمد ثنا الہی تے جو مالک ہر ہردا
وارث شاہ سرکار ؔ کہے ؛
؎ اوّل حمد خدائ دا ورد کیجے، عشقَ کیتا سو جگّ دا مول میاں ۔
اتنا ہی نہیں ، سلطاؔن باہُو بھی قریب ہی تھے ، فرمائے؛
؎ الف-اللہ چمبے دی بوٹی..
۔ ۔ ۔
ہم جھٹ سے کہے ، بابا وہ بوٹی بھی ب کی ہی ہے ۔ ہم تختی دھو کر آپ کے پاس آئے کہ اب “ب” لکھ دیجیے ..الف کو آخر ب بننا ہی تھا صاحب ! الف آپ کو لکھتے اور یاد کرتی وہ روتی آنکھیں ، وہ ٹوٹی قلمیں … کاف کافی نہ ہوئیں تھیں .. ہر لغزشِ الف کا سامنا “ب” کو ہی کرنا پڑا ہے صاحب.. تاریخ دیکھ لیجیے ، یا پھر .. ہماری تصویر دیکھ لیجیے .. آپ سمجھ گئے کہ اگر ب نہ ہوتی تو ، ت ، ٹ، ث کا وجود نہ ہوتا .. بس صاحب! ہم ب سے بڑھ نہ سکے اور ہر ہر ملتے حرف کو ہم نے جو ملایا تو .. ب ہی بن پایا.. آپ جان گئے کہ تصویر ہوئی تو ب کی ہی ہو گی.. ہم ب سے دیکھا کیے .. اور لکھے بھی تو .. ب سے ہی لکھے ..
آپ فرمائے “الف” تو ایک زاویہ نگاہ کا نام ہے .. آپ ب کو اپنا لیں .. ب ہو جائیں .. پاس ہو جائیں ..
نورانی قاعدہ سامنے کھلا پڑا ہے اور یہ کاری سی ب لکھی ہے ..
ب
فرمائے حروف کے کنبے تو علم الاسما والوں نے آشکار کیے ، مگر یہ بھی یاد رہے کہ ہر ہر حرف کی بھی تذکیر و تانیث ہے .. مثلاً الف مذکر ہے اور ب مونث، یا لام مذکر ہے اور میم مونث.. کیا کرتے ایک ایسی زبان کا جس میں ذکر و اُنثی سے حروف بھی خالی نہیں ..
ب
بسم اللہ لکھا تھا! ترجمہ پیشِ خدمت ہے؛
(ب: معنیٰ “ساتھ ہونا، قریب ہونا، وغیرہ) لہذا : اللہ کے نام کے ساتھ! ، ایک مترجم لکھے، “شروع کرتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ! آپ کے ساتھ ہونے کے لیے، ہم پوچھے، کیا پاس ہونا ضروری نہیں ہے؟ ضرور “ہی” تھا۔
اسم کے ساتھ ہونا کیا مسمیٰ کے پاس ہونے کی علامت نہیں ہے؟ آپ کہے ، علامت تو صرف قیامت کی ہے ! آہ صاحب ! ہر علامت کو ایک قیامت ہی سمجھے ! اب کہ جو کوئی مغرب میں حال پوچھے تو کہتے ہیں کہ ہم کب کے الف میں مر چکے ہیں اور اب ب کا نیا جنم لیا ہے ..
ایسے میں سید الشعرا جونؔ فرما گئے ؛
؎ میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو


ہم قلم سے ب کھینچے اور کہے ؛
؎ میں ب کے دم سے ہی زندہ ہوں
مر ہی جاوں جو ب سے فرصت ہو
آج ملی “ب” کی تختی!
… ب…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے