Skip to content

118: یک نگاہے!

ابا میاں کے سِکھائے اوّل اشعار میں علامہ کا یہ شعر آج ہمارے روبرو ہو گیا؛
؎ نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

پھر اباں میاں اور چچا جان کی مصاحبت کا یہ رنگ دِکھا کہ کوئی ہم سے اگر پوچھا کہ آپ عقل و خرد میں سے کس کو مقدم سمجھتے ہیں؟ صاحب ہم دیکھا کیے ، کیا بتاتے کہ ہمارے نزدیک نگاہ مقدم ہے ۔
؎ فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے؟

وہ نگاہِ مردِ مومن، ہم نے ہر ہر مومن میں تلاش کی وہی ایک نگاہ! جو بچپن میں پڑی اُن لفظوں کی زنجیروں کو کاٹ دیتی .. آہ صاحب ! آئینہ بینی کے ماہرین اِس بات کا اعتراف کریں گے کہ وہ نگاہ، ہمیں پسِ آئینہ مل گئی تھی! وہ نگاہ! کسی اور کی نگاہ تھی! بچپن کے شیش محل کو آپ کے سامنے لائے تو آپ نے علامہؔ کو ارشاد فرمایا؛
تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں

ساتھ ہی اکبر آبادی ارشاد کیے؛
؎ دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

ہم نے جو دیکھ بھال بھی کی تو ب سے ہی کی ،آئینہ شکستہ تو تھا ہی ، اور ٹوٹ گیا صاحب میرا جامِ سفال!
جی صاحب وہی نگاہِ آئنہ ساز ، کی شکستی کا سُرمہ پسند کرتی ہے ،
وہ نگاہِ ناز تو تھی ہی ، بندہ نواز بھی تھی!
وہ نگاہِ لم یزل، لا یزال بھی تھی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے