زمانے آنکھوں کی اسکرین پر جھلملا رہے تھے .. کیا ہوا جو ہم آپ کے پاس آ رہے تھے ..
آ گئے تھے صاحب، آ چکے تھے صاحب!
آہ صاحب، بچپن میں یاد کیا وہ پہلا کلمہ کیا کافی نہیں تھا؟
پہلا کلمہ طیّب، طیّب معنی پاک.. لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ
کیا روشن کلمہ تھا ، اور نورانی بھی.. نور ہی نور ..
ہم احادیث کی جملہ کتب کے پہلے ابواب میں ہی کھوئے رہے .. ابواب ہی ابواب.. باب ہی باب.. باپ ہی باپ.. جی صاحب.. نسلِ آدمی کی طرح افکار کی بھی جینیولوجی ہے، شجرہ ہی شجرہ ! اب کہ ڈھوک سیداں میں اسرار الحق رحمہ اللہ کی صحبت میں ہوں آپ فرمائے .. لا تقربہ ھذہ الشجرة فتکون من الظالمین.. میں لفظِ شجرة کے تیرہ معانی میں ، جبکہ اردو میں صرف درخت کہا جاتا ہے .. بس تو صاحب تب سے وہ معنیِ دیگر روبرو ہو گئے ہیں .. ہم کچھ کھو سے گئے ہیں .. وہ پہلے ابواب بھی طہارت کے ہی تھے ! ظاہری اور باطنی طہارت کے مراسم میں کھو جانے والا کوئی ..
کیا جانے !
اِس پر پہلے کلمے کا ، پہلا کلمہ کیا تھا؟ آپ پوچھے۔
“لا” تھا صاحب ! ایک یکسر نفی ! سراسر نفی ! لام ہی تھا صاحب! لا کی دو دھاری تلوار ، ذُولفقار کے لام سے ہی تھی۔ اگلے کلمے میں کہا گیا “الہ” ، جی صاحب ! الہوں کے الہ! خدا ہی خدا .. اب کہ خود کو ایک عیسائی راہب کے ساتھ احیا صوفیا ؔ استنبول میں کھڑا پاتے ہیں اور اُسے کہے کہ اِس حکمت کدے کو دیکھیے ! بخدا ابراہیمی ادیان کی تاریخ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے .. حکمتِ آدمی کے ستون بت پرستی پر کھڑے تھے صاحب۔ وہ بیش ہا مرمر کے ستون .. کن ہاتھوں نے بنائے تھے؟ آپ پوچھا کیے ..
وہ ستون، وہ عمدوی حجر اُنہی ہاتھوں نے بنائے تھے جنہوں نے آج آپ کی تخلیق کی ہے .. اُن پر کلیسائے ِ مسیح کے گنبد سجے .. اور اُن گنبدوں کو اسلام نے آ کر ہلالی کر دیا.. آہ صاحب ! ابھی آپ سُپرسیشنسٹ سوچ کا اندازہ اِسی بات سے لگا لیجیے کہ اسلام کی بھی دو تعریفیں ہیں ، ایک کے مطابق اسلام ، پیغمبرِ آخرالزماں کے ساتھ آغاز پاتا ہے ، جبکہ دوسرے کے مطابق جملہ تاریخ کے پیغمبر بھی مسلمان ہی تھے ، اوّل میں توحید ہی تھی !
توحید سے تثلیث تک کے جھگڑے بھی آپ کے ہی تھے، ہونے کے ہی تھے! توریت کہتی ہے کہ خداوند نے آدمی کی زبانوں کو بدلا اور اُنہیں مغالطے اور ابہام سے پیٹا! تو ٹھیک ہی کیا نا! اِن آوازوں میں ایسا کیا تھا؟ لا الہ