آج آپ ہانس زِمر ؔ کی دھیں سن رہے تھے ہمیں دیکھا تو فرمائے ؛
؎ لم یات نظیرک في نظرٍ مثل تو نہ شُد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسَرا جانا
جی صاحب، دوُسرا نہیں جانا،
فرمایا کہ نعت کی شعری صنف سے ہمیں بھرپُور لگاو رہا ہے۔ فرمائے آج ایک راز کی بات بتاویں؟ ہم آپ کے قریب ہو گئے ، دامن سے چپکنے والے جو یتیمِ زمن تھے وہ اور بھی چمٹ سے گئے .. آپ ہمیں ایک بات جو کہہ گئے .. فرمائے ؛
؎ البحر علیٰ و الموج طغیٰ من بیکس و طوفاں ہوش ربا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا
کیسا جادو تھا اِس کلام میں ، آپ کہے یہ کلام بھی ب بریلی کا ہے! بے شک صاحب، سبحان اللہ کا سبحان بھی ب سے ہی تھا! فرمائے ایامِ طفلی سے ایسا اثر امام احمد رضا بریلوی کے اِس کلام کا ہوا ہے کہ آج تک رم جھم ہو رہی ہے ..
؎ اے گیسوئے پاک اے ابر کرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم
دو بوند ادھر بھی گرا جانا
آپ جان گئے ، ہماری طرف مسکرا کر دیکھے کہ ، ہر ہر سِن میں برستی وہ بوندوں کے بادل برسن، ب کے تھے اور ب کے ہی رہیں گے ..
۔۔۔
.. ایسے میں اُنہیں صائم چشتیؔ کے نعتیہ کلام کا ایک قطعہ یاد آ گیا؛
؎ تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں، ہے چہرہ اُم الکتاب تیرا
نہ بن سکی ہے، نہ بن سکے گا، مثال تیری جواب تیرا
فرمائے بعض لطیف ارواح پر نعتیہ کلام خوشبو سے موثر ہوتے ہیں ۔ پھر کہے بچپن میں عثمان ریاض ؔ اسکول کی اسمبلی میں یہ نعتیہ اشعار پڑھا کرتا تھا ؛
؎ فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
خود انہی کو پکاریں گے ہم دور سے راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے
اُن تھکے پیروں سے جو کھڑا تھا، وہ راستہ ہی تو ناپ رہا تھا .. وہ بے بسی اور بے چارگی ، شوقِ سفر سے سِوا نہ تھی ! ایسے میں کہیں اور کھڑے ہیں اور عبدالشکورؔ نعت پڑھتا ہے ؛
؎ تيرے ہوتے جنم ليا ہوتا
کوئی مُجھ سا ، نہ دُوسرا ہوتا
جناب حسن نثار صاحب کے اِس کلام پر قبلہ طاہر القادریؔ بھی بحر کہہ گئے ، مگر ہم کہتے ہیں کہ دونوں کے آثار اور شعری روایت میں پیغمبر کے ساتھ جس طور کا ربط نمائیاں ہے ، اُس کا موازنہ بھی ضروری ہے۔ اہلِ سخن کو واجب ہے کہ ثنائے محمدی میں خوگری بھی دیکھیں !
ہونا ہوتا تو کیا ہوتا…
یُوں ہوتا تو کیا ہوتا
!!!!
ائے گیسوئے پاک ، ائے ابرِ کرم!