Skip to content

115: ج جسم جبین

آہ!
ماہ و ماہ جبینوں میں .. ، جو بھی تھا..
آپ پوچھا کیے ، کیا تھا؟
کیا تھا ؟ جو بھی تھا؟ جسم جبین تھا!
اِسی مراقبے میں قائم ہیں اور قونیہ میں ماتھا ٹیکے ہیں کہ کہیں سے اُستاد کی آواز آئی ؛
؎ جسمِ خاک اَز عشق بَر اَفلاک شُد
کوه دَر رَقص آمد و چالاک شُد
عقل آمد دین و دنیا شُد خراب
عشق آمد ہر دو عالم کامیاب

خطاط نے کیا لکھنا تھا دونوں عالم ، دنیا و عقبیٰ کے بھی دو عالم تھے ..
علم سے بھر پور قلم سے لکھے دو اَلم!
ظاہر و باطن کے دو قصے..
خراب شربتوں کے نئے موسم..
کیا جانتے تھے کہ رحمٰن عباس کا ناول “زندیق” پڑھے اور اُنہی جادوئی کھمبیوں کی تلاش کرنے لگے جن سے پَوربی جوان فیض پاتے ہیں .. کیا ہے کہ ، کہانیوں کی بُنت سمجھنے کے لیے ہر ہر واقعے سے گزر رہا تھا آج میں ..
آپ سے علم اُلاجسام کا سبق پڑھتے ہوئے دنیا بھر کے قبحہ خانوں میں جا اترا ..
آپ فرمائے مرحبا مرحبا..
قدسیوں کی سرزمین میں آپ پوچھا کیے ، کیا دیکھا کیے؟
بلکتے اُنسان دیکھے تھے صاحب .. آپ نے اوندھے منہ بے ہوش انسان دیکھے .. جو آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے ، فرمائے
؎ یہ کس کا درِ ناز ہے یہ کس کی گلی ہے؟
جِسے الفاظ میں ایجاد و اختراع کی حاجت نہیں رہی، اُسے آوازوں کے زیر و بم کیا بے آبرو کرتے ؟
ابد کا بوسہ؟
ابد کا روزہ تھا
یک روزہ 
ابد کا بوسہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے