Skip to content

114:بے آواز کی خاموشی

ہم آپ کو پکار رہے تھے .. پکار کو کوئی للکار سمجھ بیٹھے تو ہم کیا کہتے !
ائے طبیبِ جملہ علتِ ہائے ما
آپ یاد فرمائے تو ہم گاہ گاہ سے ہوتے ہوئے اپنے داتا کی بار گاہ میں پہنچ گئے ..
کیا میں آپ کے مزار میں پا برہنہ نہ گیا تھا؟ نہ سُنی ہوں گی میں نے وہ چاپوں کی سر گوشیاں .. وہی بے آواز کی خاموشیاں ..
ابھی اتنا ہی کہتے تھے کہ کسی نے ٹوکا اور کہا، بے آواز کی خاموشیوں پر کوئی شعر سُنائیں ، آپ نے بھی آرزو کی؛

؎ کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی

واہ! آپ کہے ، کیوں کہ جانتے تھے کہ آواز اگر بے شکل کی ہے تو بات کسی باعقل کی ہوگی۔
جی صاحب! محسن نقوی ؔ بے شکل کی آوازوں کو سنتے رہے اور ہم بے آواز کی خاموشیاں دیکھتے ہیں ..
دیکھ ہی رہے تھے، بے آواز کی خاموشیاں
ہر ہر مزار و مرقد سے نکلتی جابجا بکھری خاموشیاں ..
لے لیجیے !
ہر ہر کتبے کو دیکھ کر لکھنے والے نے اِملا میں کیا لکھا تھا؟ آپ توجہ کیے ۔ کتبوں کی اِملا سے لکھنے والے نے ہر ہر کتاب میں “لا” ہی لکھا تھا۔ اتنے میں لوحِ محفوظ پر کتبے سے اُبھرتے نظر آئے ، ہم نے قریب سے دیکھا تو “لا” لکھا تھا۔ ہر ہر سنگِ مزار کی تختی پڑھنے والے نے جو پڑھا تو بے آواز کی خامشی سے ہی پڑھا..
اور لکھا تو ،
لا کے سکوت میں !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے