
آپ فرمائے، آج ساغرؔ بہت یاد آئے .. اور پھر آپ دیر تک بیٹھے ساغر صدیقیؔ کی غزلیں سناتے رہے یہاں تک کہ آپ ساغر ؔ کا ایک شعر سنائے ؛
؎ چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں
تمہاری بزم میں ہم بے زبان بیٹھے ہیں
اور پھر دیر تک یہی مصرعہ دُہراتے رہے ؛
“چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں”
پھر آپ پوچھے کے غموں کا جہاں کیا ہوگا؟ ہم ساغر ہی سے جواب لیے اور عرض کیے ؛
؎ یہ اور بات کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے
مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں
اور کہے کہ راہوں کو چھان بیٹھنے والے کے جی میں غموں کا جہاں نہ ہو تو اور کیا ہو؟ غم کیا تھا اُنہیں ، رنج کیسا تھا اُنہیں .. ہم نہیں جانتے ، بس اتنا جاتے ہیں کہ آپ راہوں کو چھان بیٹھے تھے. اِسی لیے پُر اطمینان بیٹھے تھے ..
ایسے میں ندا فاضلؔی نے کہا؛
؎ غم ہو کہ خوشی دونوں کچھ دور کے ساتھی ہیں
پھر رستہ ہی رستہ ہے ہنسنا ہے نہ رونا ہے!!
آہ صاحب!
ایسے میں ناصر کاظمی کی گرہ یاد آئی؛
؎ بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصرؔ
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
ناصر کو کون یاد آیا ہو گا؟ “وہ” کون تھا جو کون کسی کو بھی یاد آیا ہوگا؟ فرمائے ضرور کوئی بہت پاس آیا ہوگا۔
؎ ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا ، بیٹھ اکیلے رونا ہوگا
چپکے چپکے بہا کر آنسو دل کے دکھ کو دھونا ہوگا
ہم سمجھ گئے کہ وہ جو رونا تھا، وہ تنہا رونا تھا، تنہائی کا رونا تھا۔ تنہائی بہت دیر تک روتی رہی صاحب. .
کہیں سے لَتا جیؔ کی آواز آئی..
آپ یوں فاصلوں سے گزرتے رہے
دل سے قدموں کی آواز آتی رہی . .
گنگناتی رہیں میری تنہائیاں
دور بجتی رہیں کتنی شہنائیاں
زندگی زندگی کو بلاتی رہی
۔۔۔
زندگی کا زندگی کو بلانا، کیا کسی تنہائی کو اور رولانا تو نہیں تھا؟
آپ بہت رویا کیے ..