آپ کہے کوئی بات تو ضرور ہے ، جو اتنی تاخیر ہوئی!
ہم عرض کیے کہ تحریر میں تاخیر ہی تھی، سو خاموش رہے کچھ نہ لکھے، مطلب ، کچھ نہ لکھا ہی لکھا ہوا تھا۔
ایسے میں غالب فرمائے “ ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا”
ہم تاخیر کو، تا "خیر” پڑھ گئے تھے صاحب! آپ جب دم فرماتے تو خیر کا حصار کھینچتے ! ایک بے زُبان وجود کی طرح ہونے سے نڈھال آپ کے پاس آیا ، آپ دم فرمائے ، حصار کھینچے ! یہ حصارِ خیر کا تھا؛ اوّل خیر، آخر خیر ، ظاہر خیر باطن خیر، اندر خیر ، باہر خیر!
خیر تا خیر .. خیر ہی خیر..
خیر تھی مگر ، تاخیر تھی!
یہی تاخیر لکھے تھے ، فرمایا کہ کلمے کے ساتھ سکوت بھی لازمی ہے، نور کے ساتھ ظلمت بھی۔ البتہ بشر کو یہ زیبا نہیں دیتا کہ نور کو ظلمت سے سوا دیکھے۔ ب کا بشر جو دیکھے ب سے برابر دیکھے!
اِسی دیکھنے میں مسجد شیرِ رباّؔنی میں سجدہ ریز ہیں ، مولوی صاحب نے دعا میں کہا، یا پروردِگار ہمیں اِس دنیا میں اور دوسری دنیا میں بھی خیرِ کثیر عطا فرمانا۔ ہم آمین کہے .. ہر دعا پر جس میں خیر شامل تھی۔ ہم تبھی سمجھ گئے کہ اِس دنیا میں یعنی دوسری دنیا میں ہی خیر کا سامان ہوگا۔ تیسری دنیا میں خیر…؟ کب ہوگی؟
تیسری دنیا میں خیر تو تھی، مگر تاخیر تھی!
خیر تا خیر!
ایسے میں داغ دہلؔوی نے گرہ لگائی ، فرمائے ؛
؎ نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
آہ صاحب آنے والا آتے ہوئے ، کیسے آیا ہوگا! ہم سوچنے لگے۔
ہر ہر لمحے میں آیا تھا ،آپ کا خیال باندھا کیے ! اب کے آپ کے الف خیال میں گم ہیں ، کیا دیکھتے ہیں کہ کوئی “خیال” کو “واہمہ” سمجھتا ہے تو کوئی “تصور” یا “وسوسہ “ قرار دیتا ہے۔
آہ صاحب،”قرار” !
؎ کہیں قرار نہ ملا تجھے بھلا کے مجھے
قرار آتا تو کسی مہ جبیں سے اقرارِ افتراق ہوتا!
قول و قرار و رنج و خو. . . نہیں دل کو اب کسی کی بھی جُو. .
لفظِ “جُو” سُن کر علؔامہ بھی مسکرائے ؛
؎ تُو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جُو
۔۔ اب کہ دیکھا کہ “آب جُو” کو پڑھنے والے نے “آبِ جو” پڑھا اور ساتھ ہمیں اصلاح دیے کہ آپ” اعراب” زیادہ نہ لگایا کریں !
آہ صاحب!
خاموشی کے دشت میں جو گھڑ سوار لپک رہے تھے، وہ طلسم آنکھوں میں نون سُرمے ..وہ سینہ زن، وہ کاف تن.. سیاہ لبادوں میں اتر رہے تھے.. آپ پوچھے کہ کون تھے؟
اعراب ہی تھے صاحب !
الف کی مد، آب آپ ہی تھے صاحب
آ پ کہے ، کسی زبان کے لب و لہجے، تلفظ اور ادائیگی کے اپنے معیار ہیں ۔ زبانِ معلیٰ میں آج رائج کوئی ایک تلفظ کا قائدہ نہیں اور اگر ہر شہر، قریہ گلی کے لہجے کو ہی ایک معیاری لہجہ “قرار” دے دیا جائے تو اُس صورت میں بھی شکایت یہی ہے کہ اُن کو بھی محفوظ نہیں کیا گیا۔ محفوظ تو صرف ایک لوح تھی! لوحِ محفوظ کی، جس پر لکھی تحریریں زمین پر بھی محفوظ کی جا رہی ہیں .. وہ تحریریں بھی ، خیر کی تھیں ۔
کورے لفظوں کے سپاٹ چہروں پر جو رونقیں تھیں وہ اِنہی “اعرابوں” کی تھیں !
نور کا قائدہ ہے اور حروف سارے سیاہ تھے صاحب! ہم سمجھ گئے کہ نورانی قاعدہ ہے اور حروف..
آپ کیسے دیکھے ، کہ نظروں سے پوچھا، “اور حروف..”؟
آہ صاحب! کلمہ طیّب تھا ،سین سیاہی سے لکھا تھا۔