Skip to content

107: نون آنکھوں کے تعاقب میں

Grave of J. Keats, Roma, 2013
Grave of J. Keats, Roma, 2013

دن کے اُجالے بُجھ گئے تھے اور رات کے سائے ٹمٹما رہے تھے !
آہ صاحب! آپ سے بات کرنے کو ہر کسی کے لب کپکپا رہے تھے! آپ پوچھے کہ سائے ٹمٹما یا پھر لب کپکپا کیوں رہے ہیں؟ ہم کچھ نہ کہے دیکھتے رہے آپ کی نون آنکھوں کو! نون آنکھوں کے تعاقب میں ماڈل ٹاون میں ریاضت کر رہے ہیں اور مُنی باؔجی اپنی ڈائری دِکھاتی ہیں ، ابنِ انشا کی غزل کیسے خوش خطی سے لکھی تھے؛ مُنی باجی پڑھ کر سُنانے لگیں ..
؎ کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا

صاحب آپ کی ہی بات ہو رہی تھی … آپ کی باتیں اور آپ سے باتیں ، اگر مقصدِ حیات نہ ہوں تو کیا ہوں؟ مقصدِ حیات، قصرِ ثبات ہی تھا صاحب! فانی کے لافانی میں اور ثانی کے لاثانی میں ملنے کے واقعات جاری تھے ..”ہم چپ رے، ہم چپ رہے، مقصود تھا پردہ تیرا..” آپ کے جیسیوں سے، آپ کے انشوں اِبن اِنشوں سے باتیں کرتے رہے ، آپ کی باتیں ..
؎ کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا

ہر چیز آپ کی ہی تھی، جوگی، بھی یہی سمجھے ہیں .. ڈائری! آہ صاحب! مُنی باؔجی کی ڈائری ہو یا لوگوں کے خطوط ہم پڑھا کیے صاحب، لفظوں میں ڈھونڈا کیے وہ اسمِ اعظم جو خاموشی کا “رَہین” ہو، ایسے میں دریائے سین کے کنارے لگے بک اسٹالز میں لگے پرانے پوسٹ کارڈز میں بھی دیکھتے رہے .. ہر ہر نامہ بر کو دیکھا کیا .. آہ صاحب! آپ کا ہی تذکرہ تھا۔
؎ ہم پر یہ سختی کی نظر ہم ہیں فقیر رہ گزر
رستہ کبھی روکا ترا دامن کبھی تھاما ترا

۔۔۔
آج کپکپا رہے ہیں .. آپ کی جانب آ رہے ہیں . . . .!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے