
دن بھر ملامت اوڑھنے والا ، رات بھر ریاضت کرتا رہا تھا صاحب! لفظوں کی ریاضت اور ہجوں کی معرفت واسطے ہر صراط پر سے برابر گزرتا رہا.. ایسے میں آپ چاند دیکھا کیے اور فرمائے
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے؟ جو تیرے غم کے بہانے نکلے ؟
ب بہانے سے غم کہاں نکلتے تھے صاحب! غم ، آہ صاحب غم! آپ فرمائےانگریزی میں کم! ہم سمجھ گئے کہ آئے یا نہ آئے غم تو ہوگا! آپ کے اِسی غم میں مبتلا ہیں اور جیّد استاد پروفیسر ڈُکتر حسین آتائی کے کتب خانے میں بیٹھے ہیں ۔وہ کہنے لگے یہ ساری تفاسیر دیکھو!
ہم دیکھے تو یک لخت کہے ؛
؎ اُس نے اِک بات کہی لاکھ فسانے نکلے ..
وہ بات کیا تھی صاحب؟ آپ فرمائے وہ بات بہانے کی نہیں بہلانے کی تھی! کوئی بتلانے کی سمجھ بیٹھا ہے تو کوئی بُجھانے کی !
اتنی سی بات سے لاکھ فسانے جو نکلے تو غم بہلانے کے واسطے ہی نکلے !
اب کے تایا جیؔ کے یہاں موجود ہوں آپ نے ہمیں غمگین پایا تو حکیم ناصؔر کا یہ شعر دم کر دیا؛
؎ پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے
وہ لطف، وہ حظ جو غم کے سہنے میں تھی کہا وہی غم کے بہنے میں بھی تھی؟ آپ پوچھے! ہم پھر سے چاند کو دیکھنے لگے ؛ اور اپنی بنجارگی میں علاؔمہ کو یاد کرنے لگے ..
؎ اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
اُنہی مقاماتِ آہ و فغاں کو کھوجا کیے تھے صاحب! ایامِ طفلی میں ابامیاں کے ساتھ ننھے قدم بھرتا چل رہا تھا .. آپ رکے اور پلٹ کر ہمیں دیکھا اور کہنے لگے ؛
؎ تُو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
ہم نے ہر ہر آسماں کو بھی مقامِ آہ و فغان پایا! ایسے میں غالبؔ نے تائید کی ، کہنے لگے ؛
؎ ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب؟
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
نقشِ پا ، آہ وہ فغاں ہی تھا