واہ صاحب! ایک روز شرافت چچا سے بات ہوئی ، قریب دس برس کے بعد، کہنے لگے کہاں رہتے ہو، ہم کہے پندرہ بیس مکان تو بدل چکے ہیں ۔ جواب دیا، کہ اتنے مکان تو ٹھگ بدلتے ہیں ! آہ ہا صاحب! ٹھگ بننا کیسا گُر تھا، کاش نصیب ہو جاتا! ایسے میں بلھے شاہ سرکار نے بتلایا کہ ٹھگ ہی بنو، ٹھگ ہی رہو! ساتھ کہے؛
؎ پی شراب اَتے کھا کباب، بیٹھ بال ہڈاں دی اَگ
بُلھیا بھن گھر رب دا، ایس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ
ٹھگوں کا ٹھگ! وہ رنگریز کون تھا، جو ہر رنگ کو سیاہ میں رنگے جا رہا تھا؟ آپ پوچھا کیے ، باخدا ہم تذکرہ غوثیہ کے کرداروں سے کتنی ہی مرتبہ ملے تھے.. وہ رنگریز جس نے ہر کرتے کو کالا رنگ دیا، اُس نے اور کیا کیا؟ صاحب سب کے گریباں چاک تھے!
آپ پوچھے ، اور دامنِ یزداں !
آہ صاحب، وہ بھی ، چاک ہی تھا!
آپ رویا کیے ! فرمائے ہمارے گریبانوں کی چاکی ناچاکی تو اِسی طرح چلتی رہے گی لیکن دامنِ یزداں چاک ہو گیا تو رحمت کے بھکاری کہاں جائیں گے؟ جی صاحب ہم شرافت چچا سے کہے کہ ب کی بنجاری بھیک سے عبارت ہے ! اور بنجارہ ٹھکانہ بنائے کیسے؟ کہنے لگے تو خود کو قائم کیسے کیے ہو؟ ہم کہے لفظوں کی قید میں خود کو قائم کیے ہیں .. ب کو الف سے باندھے ہیں اور صراط پر سے گزر رہے ہیں ..
آپ کو ٹھگ رہے ہیں !
لکھ رہے ہیں !
۔۔۔۔