Skip to content

105: شام کا اہتمام

Niederösterreich, 2016

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

آج فیؔض کا یہ شعر پڑھ کر سوچنے لگے کہ جو شبِ غم گزار کر جا رہا تھا، وہ کون تھا؟
ایسے میں داؔغ دہلوی بھی پوچھا کیے؛
؎ تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا ؟
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا؟

آپ کے نام پر گزری شام، تو شبِ غم بھی کٹ ہی جائے گی! سوچ رہے ہیں اور بچپن کی بے تابیاں ہیں ، چچاجان کے پاس وارفتگی میں آیا؛ تو آپ نے جگرؔ کے شعر کا دم کیا؛
؎ طول غم حیات سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو

لیکن پہلا مصرع کچھ اِس طرح سے پڑھے؛
طول شبِ فراق سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو؟

آج عرض کیے دیتے ہیں کہ ایسی بھی اِک شام ہے جس کی سحر نہ تھی! وہ شام، آپ کے نام کی تھی! ایسے میں مفتیؔ یاد آ گئے ، اپنی کتاب “تلاش “ میں فرماتے ہیں کہ پاکستان اللہ میاں کے” نام” پر پکی دیگ ہے! ہم سمجھ گئے کہ جب تک نام رہے کا، دیگ بھی رہے گی اور شام بھی! انہی واسطوں میں سرگرداں رہے تو ایک روز اکتاہٹ ہوئی، ابا میاںؔ کو دیکھنے لگے تو آپ نے منشی امیر اللہ تسلیم ؔ کا ایک شعر یوں “دم” کیا؛
؎ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یُوں ہی تمام ہوتی ہے

آپ پوچھے ، رامؔ کی شام ہے، تو کچھ اہتمام بھی ہے؟
جی ، صاحب ! عمر کے تمام ہونے کا ہی اہتمام ہے!
ہم ہوتے صبحیں اور گزرتی شاموں میں بھی یک رنگی دیکھا کیے! ابامیاںؔ مرحوم کا زور “یُوں ہی” پر کچھ اِس طرح ہوتا کہ ہمیں اگاہی ہو گئی، کہ ہم بھی “یوں ہی” تمام ہونے کا اہتمام کریں گے۔ ایسے میں اِک روز اُن کے ساتھ باغات میں بہل رہے تھے کہ آپ نے علامہؔ کا یہ شعر سنایا؛
؎ کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

اور پھر ایک مدت اِس کا مصرع دہراتے رہے ! “چراغِ سحر ہوں بُجھا چاہتا ہوں”!
بجھنے کی کیسی چاہت تھی اُنہیں ! کہ شبِ ہجراں ہو یا شامِ غریباں دونوں کی طوالت ایک سی ہے!
ایسے اندھیروں میں لفظوں کے سائے کوئی کیوں کر اٹھائے ..
اور جس کے سر پر دودھ کا لبالب بھرا پیالہ ہے ، اُس کے کاندھوں پر لفظوں کے سائے . . .
ہائے ہائے ہائے ..
جو شبِ غم گزار کر جا چکا تھا ، وہ چراغِ سحر کبھی کا بجھ چکا تھا!
باشب، بے شب!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے