Skip to content

104: اشعار کا دَم!

Bursa Osmangazi, 2015.

آپ فرمائے کہ آیاتِ سبحانی اور ذکرِ ربانی کے ساتھ ساتھ کسی بھی شعر یا عبارت کا بھی دم ہو جاتا ہے!
ہم لفظوں میں دم بھرتے رہے تھے صاحب. . آوازوں کے فریب میں گرفتار نہ ہو سکنے والا کوئی خاموشی کا رہین! کیا قید تھا یا آزاد؟ آپ پوچھے تو ہمیں جگر مراؔد آبادی کا ایک دم یاد آ گیا۔ تایاؔجی نے ہم پر کتنی ہی مرتبہ کیا تھا۔
؎ اس نے اپنا بنا کے چھوڑ‌دیا
کیا اسیری ہے‘ کیا رہائی ہے ​!

ہم اُنہی ایامِ طفلی سے اسیری اور رہائی کے مراحل طے کرنے لگے ؛ عجب کہتے ہیں کہ خاموشی کا رہین، آزاد نہیں ، آزار تھا!
“کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے” جیسا بھی سوال تھا ، آزار تھا! لذتِ آزار سے بہل نے والا کوئی آزر!
آزار ہی تھا صاحب!
؎ لیکن تیری یاد سے غافل نہیں رہا
آپ سمجھ گئے کہ” عاقل” ہو تو ہی ” غافل” ہو سکتا ہے !
مذاہبِ آدمی میں عاقل اور غافل ہونے کے لیے بھی بالغ ہونا ضروری ہے ! آہ صاحب ! کون جانتا تھا کہ بلوغت کیا ہے؟ کیا نامیاتی وجود کے احتلام کو ہی بلوغت کی علامت سمجھا جائے گا؟ہر علامت کے ساتھ ایک نئی قیامت بھی جڑی تھی! لفظ کے ساتھ لفظ کا آہنگ تھا صاحب! ہم آہنگ میں چلتے گئے !
اشعار و افکار سے “بیمار” کوئی ذہن ،. . . ہم اتنا ہی کہے تو پوچھے، “ بیمار کیوں تھا”؟
ہم عرض کیے ، “بیمار” نہیں ، “بے مار” تھا صاحب!
ب کا مارہ!
ب کی مار ! کاری تھی! بُلھے شاہ سرکارؔ کے بارے روایت ہے کہ مولوی صاحب کے پاس قرآن خوانی کے لیے گئے ۔ پہلے روز “الف” پڑھایا گیا۔ آئندہ روز، مولوی صاحب نے کہا، پڑھو “ب” تو آپ نے فرمایا؛
؎ الف اللہ دل رتّا میرا
مینوں ‘‘ب‘‘ دی خبر نہ کائی
‘‘ب‘‘ پڑھیاں کجھ سمجھ نہ آوے
ائے لذّت الف دی آئی!

وہ “لذتِ الف “کیا ہوگی؟ آپ پوچھے ، ہم جھٹ سے کہے ، ہو نہ ہو کہ لذتِ الف،” الف انتظار” ہی کی ہے۔
؎ لذتِ انتظار لیتا ہوں ، یوں شبِ غم گزار لیتا ہوں
لذتِ الف سے شبِ فراق کٹ رہی ہے، لفظوں کے آسیب میں چل رہے ہیں … زمانہ بانکپن میں ہی اشعار کا دم ہوتا گیا۔
تایا جیؔ کے دم کیے اشعار میں سے غالؔب کا ایک “دم” پیشِ خدمت ہے ؛
؎ واحسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریص لذت آزار دیکھ کر

آپ اِسے کچھ یُوں “دم” کرتے ؛
؎ آہ! حسرتا یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصِ لذتِ آزار جان کر
مگر ہم پر اثر کچھ اور طرح سے ہو گیا صاحب! آہ، کہ اشعار کا دم کرنے والوں کی تدبیریں اُلٹی پڑ گئیں، ہم جان اور مان گئے کہ “واہ” اور” آہ” ایک سی ہیں! ایک ہی ہیں ! اب کے مشرق و مغرب کی گلالی گھاٹیوں پر سے جب بھی گزرے جی ہی جی میں یہی کہے ؛ واہ حسرتا یار نے کھینچا “کرم” سے ہاتھ، ہم کو حریصِ “لذتِ انتظار” مان کر!
ایسے بِلکے کے سجدے میں مناجات کرنے لگے!
دعاوں میں جو اشعار پڑھے تو آپ کو ہی مانگا کیے !
آپ کے مانے اور مانگے سے ہی بسر بسرام ہو رہی ہے !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے