
فرمائے آج ابنِ اِنشؔا بہت یاد آئے !
اُن دِنوں لاہور ماڈل ٹاون میں رہائش پذیر ہوں ، ٹی وی پر اُستاد امانت علی خانؔ رات کے ایک پروگرام میں اِنشا کی غزل گا رہے ہیں ؛
؎ انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
کہتے ہیں کہ آپ اُن دِنوں علاج کے لیے لندن میں مقیم تھے اور یہ آخری غزل کہی اُس کے چند ہی ہفتوں میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ اور تو اور گائیکوں کے بارے بھی ایسی باتیں مشہور ہیں ۔ ہم بچپن کے اُنہی ایام سے یُوں دہراتے گویا، ہم ہی اِنشا ہیں !
؎ جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بَن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا؟
کیا کرتا دیوانہ؟
انشا جی کا بَن، ہمارا بونؔ قرار پایا صاحب!
“بنجاروں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے بنجارہ کیا! “
بنے کوئی چارہ ، نہیں تو . .. . .
بے چارہ کیا کرے؟ ہم یہی سوچ رہے تھے کہ فیضؔ پھر سے مخل ہوئے ؛
؎ ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
ہائے صاحب ! بَن میں جوگیوں کا بسرام ہے ۔
آپ پوچھے کہ جوگیوں کا تو بَن میں بسرام ہے مگر “رام کا بسرام” کہاں ہے؟
وہ بھی من میں تھا صاحب!
من بھی بَن ہی تھا، بن رہا تھا!
رام کے بسرام بارے بیچار کر رہے تھے تو کبیرؔ داس فرما نے لگے ؛
؎ مالا پھیروں نہ کر جپوں
اور مکھ سے کہوں نہ رام
رام ہمارا ہمیں جپے رے
ہم پایو بسرام
۔۔۔
آپ سمجھ گئے کہ بسرام، بستر پر آرام کی مانند ہوتا ہوگا۔
رام آئے تو ، آ، رام ، ہو گا!
ایسے میں قبلہ اصغر نظامیؔ نے عقدہ کشا کیا، اور ہمیں راہ سُجھائی ؛
؎ وہی رام میں، وہ رحیم میں، وہی الف لام اور میم میں
وہی کہہ کے کُن کہیں چھپ گیا اسے ڈھونڈھ اپنے ہی بن میں جا
بَن میں چلتا بنجارہ !
۔ ۔ ۔