
فرمایا جسم کی عاقبت اِسی میں ہے کہ عادتوں میں جُتا رہے، بدن کا بیل جوکھ اٹھائے !
وہ جوکھ کس کے تھے؟ آپ پوچھا کیے۔ فرمائے جوکھ، جوگ کے ہی ہیں !
جوگ کے ہر ہر روگ میں کیا تھا؟ آپ پوچھے!
سنجوگ تھا صاحب!
رُوپ اَروپ میں سنجوگ سے نبھا کرنے والا جوگی! جانتا ہے کہ “کرتا” نہیں ہے ! فرمایا “کرتا” صرف پَرم آتما ہے! اور شریر تو صرف روگ اٹھاتا ہے ! ایسے میں راوی ریحان شریف میں سید افضال حسین شاہ صاحبؔ کی صحبت میں ہے، فرمائے
؎ ہتھ کار وَلے، دل یار وَلے ( کام جو بھی کرو دل میں یادِ خدا ہو)
یاد! آہ صاحب! واصف صاحبؔ یاد آ گئے کہے، کہ زمین و آسمان کی بُنت ہی یادوں سے ہوئی ہے !
۔۔ .۔ ۔
میڈم ؔ نے فیضؔ کو گنگنایا ؛
؎ تیری اِن آنکھوں کے سِوا اِس دنیا میں رکھا کیا ہے
ہم سمجھ گئے کہ تیری یادوں کے سِوا اِس دنیا میں رکھا کیا ہے؟ یادیں آنکھوں میں تھیں ، آنکھیں ہی یاد تھیں صاحب! کِسی نابینے کی طرح ہمیں آپ کے حسن کی آنکھیں یاد رہ گئیں! فیض تو کہے تھے
؎ صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
ہم سمجھے ، کہتے ہیں ،” صد شکر کہ اپنی یادوں میں اب ہجر کی کوئی بات نہیں!”
فؔیض کو تو دنیا نے آپ کی یاد سے بیگانہ کر دیا
؎ دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
ہم بے گانہ نہ ہو سکے ! آپ فرمائے ؛
دنیا نے تیری یاد میں دیوانہ کر دیا
تجھ سے نہ دل فریب تھے غم اِس دیار کے
دیار دیار ، بنجارگی میں چلتے گئے اور خود کو تحریکِ منہاج الؔقرآن کے مرکز میں پاتے ہیں ، قبلہ افؔضل نوشاہی صاحب ، اعظؔم چشتی صاحب کا کلام سُنا رہے ہیں ؛
؎ فرقت کی سختیاں مجھے منظور ہیں مگر
اتنا ضرور ہو کہ تجھے بھی خبر رہے !!
ہم سمجھ گئے تھے کہ خبر کا جبر قائم رہے گا، اور فرقت کی سختیاں ہوں بھی تو بدن ہی جھیلے گا!
بدن کا بیل !
تن کا سانڈھ!
ہجر کا ہنٹر برابر برس رہا ہے اور یاد میں یاد ہی ہے !