رات سَو تاروں سے سنہری ہو چکی تھی،
ماہتاب کو دیکھنے کی تاب کسے تھی؟
ایسے میں ابا میاں ہمیں حکیم صؔدیق شاہین کے مطّب پر لے گئے ، آپ نبض دیکھے تو فرمائے “تاب نہیں ہے”! بے تاب ہے ! آہ غالب داداؔ بھی کہے ؛
؎ عاشقی صبر طلب ہے اور تمنا بے تاب
دادی اماں نے سُنا تو ہمیں چھُو کر کہا، بچے کو “تاپ”( بخار) ہے۔ آپ سمجھ گئے کہ تاب تو بیتاب ہے ، تاپ بھی ب سے ہی تاپ تھا! ایسے نحیف بدن سے کوئی دو قدم کیسے چل لیے ۔ ہم زندگی کی راستی تھامے صراط پر سے گزر رہے تھے ، آپ پوچھے صراط پر سے گزرنے کو کیا چاہیے؟ ہم چھٹ کہے ، ایک بٰ چاہیے!
ب سے بابا بُلھے شاہؔ فرمائے ،
اِکو الف تیرے درکار !
“در کار” تو تھا ہی، مگر ب کے بغیر بیکار تھا صاحب!
الف آپ کا اور ب بھی آپ کی!
لیجیے اور صراط پر سے گزر جائے !
اب کہ بابا فریدؔ کے دامن سے چمٹے ہیں اور پاکپتنؔ میں ہیں .. متولیوں نے قفل کھلوایا کہا بہشتی دروازے سے .. آپ گزر جائیے، آپ کا “آپ” ب سے ہے .. ہم کبھی سناٹوں سے گزرے اور کبھی ایسی دکھم پیل ہوئی .. فرمایا بہشت کو جانے والے ہر ہر دروازے سے گزرنے والا ، اگر کامل ہو تو جانتا ہے کہ وہ دراصل صراط پر سے ہی گزر رہا ہوتا ہے ..
وہ گزرنا کیسا تھا؟ وہ گزر کر یہاں پہنچنا کیسا تھا؟ آپ نے شفقت سے بہلایا!
بہلتا ہوا اِدھر آیا!
۔۔۔
جس نے راؔم کی لِیلا کو مجنوں کی لیلیٰ سے قیاس کیا، وہ یاس کیوں کرتا؟
ایسے میں ایامِ نوعمری ہیں اور امتحان کے بعد نتیجہ لینے کا وقت آتا تو ہمیں میدانِ حشر معلوم ہوتا..
ایسے میں میڈم طاہرؔہ نے کہا تم پاس ہو!
آہ صاحب پاس ہونے والا اُداس کیوں رہتا ہے؟
ایسے میں جواب ساحر لُدھیانوی نے فرمائے؛
؎ چند کلیاں نشاط کی چن کر مدتوں محو یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
وہ مدتیں کتنی طویل تھیں صاحب؟ اوّل اسکول کے صحن میں لگا وہ برگد کا پیڑ بھی … آپ نے نوٹ کیا، ب سے ہی تھا! اُس پیڑ کے تنے کو چُھوتے جس نے آپ کو پکارا تھا، وہ جو اپنی الف تنہائی میں صرف بٰ بٰ ہی کہہ سکتا تھا!
با، با!
سو سیانوں کی ایک بات !
سو ستاروں کی ایک تاب!
ب کی تاب!