فرمایا میاں شیرِ محمد شرقپوریؔ نے کہ “جھوٹ موٹ کہو تو سچ مچ ہو”!
وہ کہنا کیا تھا صاحب؟
فرمایا جو بھی کہنا ہو ، جو بھی ہو، سو ہو!
آہ صاحب! سو ہی تھی ! سو ہی ہے! سوویں نشست مبارک!
کوئی سو کہا ہے، کوئی سو رہا ہے اور کوئی ہے کہ صد کی صدا لگا رہا ہے ۔
ایسے میں قبلہ نعمان مدثرؔ صاحب نویں جماعت میں اردو کا پیریڈ لے رہے ہیں، فیضؔ کی غزل پڑھائی جا رہی ہے ؛
؎ کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
ہم سمجھ گئے کہ فیضؔ کہتے ہیں کہ سو شکر کہ اپنی باتوں میں اب ہجر کی کوئی بات نہیں !
وصل کی رات ہو تو ہجر کی بات کیوں ہو صاحب؟
جس نے آمد کی “مدّ” کو خوشی سے مد پڑھا ہو ، وہ اُسلوبِ لحن عطا کیجیے ! آمد، آمدید، خوش آمدید!
۔ ۔ ۔ ۔
پوچھا کیا ہے؟
جو بھی ہے پورا سو ہے! ہو ہی تھا صاحب، سو ہی تھا صاحب ! پورے سَو کا سُرخ کڑکتا نوٹ! لیے ہم دوڑ رہے ہیں ایامِ طفلی میں بھی بالیدگی نصیب ہو جائے تو آدمی کیوں نہ ماہتاب دیکھے؟ ایسے میں فیض کہے ؛
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ہم سمجھ گئے کہ کنایہ کرتے ہیں ، جو کوئی بھی شامِ غم گزار کر جائے گا وہ صراط پر سے ہی جائے گا۔ اور محبت میں میرؔ جی کا بھروسہ کچھ نہیں ! ایسے میں غالبؔ کہے ؛
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
دم نکل رہا ہے لیکن جی رہے ہیں ! ایسے میں صراط سے قمر جلالویؔ نے آواز دی ؛
یہ رستے میں کس سے ملاقات کر لی
کہاں رہ گئے تھے بڑی رات کر لی
شب غم کبھی در کو اٹھ اٹھ کے دیکھا
کبھی اُن کی تصویر سے بات کر لی
ہم اہل جنوں کا ٹھکانا نہ پوچھو
کہیں دن نکالا کہیں رات کر لی
۔۔ سو کی پہلی رات۔۔۔