اَز عبدالباسط ظفر
گھر کے سامنے والے پیڑ پر موجود کووّں کے درمیان شدید گرماگرم مباحثے چل رہے تھے۔ میں سامنے اپنے کمرے کی دراز قد کھڑکی سے دیکھ رہا تھا .. غالباً اُن کے درمیان کوئی مابعدالطبیعاتی مسئلہ زیرِ بحث تھا کیوں کہ اُن کےپنجے گندے اور چونچیں خالی تھیں ..
ہم اُن کے درمیان ہونے والے اُس سارے مکالمے کو تو نہیں لکھ سکتے، البتہ یہ بات یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اُن کے درمیان ہونے والی اِس گفتگو کا یقیناً کوئی ماحولیاتی پسِ منظر ضرور ہو گا ..دیکھیے!
پہلا کوّا جو گھر کی منڈیر پر بیٹھا ہے ،سامنے دوسرے کووّں سے کہتا ہے ، کائیں کائیں کائیں!!!!!!
اب چونکہ کم از کم کوّے پندرہ بیس ہیں ، یا تو ہم اُنہیں کوئی نہ کوئی نام دیں گے مثلاً ٹیپو، ٹونی، شیرو، ٹائیگر، پہلوان ، کانا، پھیرکی، سائیکو، مینی وغیرہ یا پھر ہم اُنہیں نمبرنگ کر دیں گے تا کہ شناخت کرنے میں آسانی رہے۔ اب چونکہ سامنے درخت پر موجود تمام کووّں کے قریباً رنگ اور وردیاں ایک جیسی ہیں اِس لیے اُس طرح نام یا نمبرنگ سے بیان مبہم ہو جانے کا خدشہ ہے ۔ کیا معلوم ہم جتنا بھی سچ کہیں، سننے پڑھنے والے کا اپنے ذہنی کووّں میں ہمارے اِس وقت کے درخت پر موجود کووّں سے گڈ مڈ کر دینا یقینی ہے۔
البتہ ہم اُنہیں اُن کی مکانی پوزیشن سے واضع کر سکتے ہیں ، لیکن یہ مکانی پوزیشن بھی ریاضی کے ہندسوں کی پیچدہ گرافک شکل میں نہیں ہو گی، کیوں کہ اُس کے لیے جس نوعیت کے جدید آلات دستیاب ہیں وہ صرف امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ملکیت ہیں ۔ چنانچہ لکھاری بننے کے لیے ہم ایک دیسی سے أسلوب کو اختیار کریں گے، اگرچہ اُس میں بھی کووّں بے چاروں کے آپس میں الجھ جانے کا خدشہ برقرار ہے لیکن کیا کیجیے ؟
کوّا نمبر ایک یہ سامنے منڈیر والا ہے جس نے دوبارہ پھر کائیں کائیں کائیں کیا اور اُڑ کر منڈیر کے دوسرے کنارے پرجا بیٹھا ہے !
لیکن جناب یُوں تو یہ سارے کوئے اڑ کر اپنی جگہ بدلتے رہیں گے ..تو ہمیں کچھ دیر کے بعد إحساس ہو گا کہ کوّا نمبر ایک کوّا نمبر تین کے ساتھ اُڑا ، اب جو کوّا واپس آیا ہے کیا وہ کوّا نمبر ایک ہے یا تین؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم کسی جگہ بھنبھناتی مکھیوں کو محض اُن کے زمانی مکانی محل وقوع سے جانتے ہیں پہچان انہیں بھی نہیں سکتے ۔ یعنی آیا مجھے اِس کمرے میں موجود پانچ مچھروں نے پانچ بار کاٹا ہے یا ایک ہی مچھر نے ؟ یعنی یہی تو اصل کھیل ہے کہ انسانی عقل جس چیز کا احاطہ نہیں کر پاتی اُسے یا تو فضول کہتی ہے یا مقدس مان لیتی ہے! ہر دو صورتوں میں وہ در اصل سے چھٹکارا چاہتی ہے!
یعنی آپ جس کسی سے پوچھ لیجیے، اُن کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کوّوں کی کوّا شماری کروائی جائے، یا مچھروں کو ڈومیسائل آلاٹ کیے جائیں یا پھر مکھیوں کے ٹریفک لاسنز جاری کیے جائیں !! حالانکہ یہ کافی سنجیدہ مسائل ہیں!
کائیں کائیں کائیں
اِس درخت کے نیچے زمین پر کوڑے کے تین شاپر پڑے ہیں، جو آج صبح ہی ہمارے اور پڑوس کے گھر والوں نے لا کر رکھے ہیں .. دو سپاہی ذات کے کوّے دائیں بائیں دیکھتے چوکس و چوبند آہستہ آہستہ اُن کوڑے کے شاپروں کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں .. اور سامنے منڈیر پر بیٹھے کوّا نمبر ایک کو، “ کائیں کائیں کک ک ک کائیں “ کرتے رہیں۔ (جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہم شاپروں کی طرف بڑھ رہے ہیں ، یا کچھ بھی )
یہ ضروری نہیں کہ کوّے تین تین بار کے مناسب صَوتی فاصلے سےہم آواز کلام کریں!
کبھی کبھار وہ دو بار یا ایک بار” کاں” کہہ کر ہی اپنا مدعا بیان کر لیتے ہیں .. یہ بھی ممکن ہے کہ مجھ جیسا أوسط درجے کی قوتِ سماعت رکھنے والا شخص اُن کے حروف مہملہ کو کائیں سمجھتا ہو جبکہ وہ کاف ، قاف، اور کیف کی مختلف حالتیں ، مناسب فاصلے، وقت، اور درخت کی کس ڈال سے یا شجر کی کس ٹہنی پر سے ، کس طرف دیکھ کر کہے جا رہے ہیں .. اپنے لفظوں کو یُوں معنی کی بالیدگی دیتے ہوں!
خیر، اُن کو ملاحظہ کرتے ہوئے اتنا یقین ہو گیا کہ یہ ضرورکووّں کا ایک گینگ ہے .. میں اِن کے لیے گینگ سے مناسب کوئی اور لفظ نہ سوچ پایا .. کیوں کہ یہاں اِن کا گھونسلہ تو ہے نہیں،اب یہ درویش ہونے سے رہے کہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں یہ کوّا بناتا نہیں آشیانہ وغیرہ .. اَجی نہ پوچھیے صبح سے شام تک یہ درخت اِن کی آوارہ گردی کا اڈہ ہے .. دوسرا اِن کووّں کے درمیان کوئی مادہ کوّی نہیں ہے اگر ہوتی تو اِن کے باتمیز ہونے کا احتمال پیدا ہوتا !
یہ نر کوّے نہ صرف چھچھورے ہیں بلکہ اوباشیاں بھی جائز سمجھتے ہیں ۔ اکثر ایک دوسرے کو اپنی زبان میں گال گلوچ کرتے بھی سنے گئے ہیں ..
اوئے تیری … دی ..!!! یہ ککاککائیں کا پنجابی ترجمہ تھا۔
کائیں !
اُس پیادے سپاہی کوّے نےنوکیلی چونچ سے شاپر میں ایک سوراخ کیا، دوسرا کوّا بھی فوراً اُڑ کر شاپر کے اُس سوراخ پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے .. جس کے اندر سے انسانی استعمال شدہ اشیاء کل رات کا کچرا، پلاسٹک کی چند ٹوٹی چیزیں، پلاسٹک، لپ اسٹیک، انسانی بال، باسی سالن، مزید شاپر اور اُن شاپروں میں موجود زہریلے مادے ..
دوسرا کوّا پنجوں سے کوڑے کو ٹٹولتا ہے اور مایوس ہو کر پہلے کی طرف دیکھ کر کہتا ہے ؛
کوکائیں! یعنی کچھ بھی نہیں ہے ۔
کل ہی کی بات ہے ، دو کوّئے آپس میں مختلف کھانے ڈِسکس کر رہے تھے ، ایک نے کہا مجھے چپس پسند ہیں اور دوسرے نے کہا اُسے سموسے اچھے لگتے ہیں ! بھائی کہاں چپس کہاں سموسے ! یہ دونوں چیزیں یہ کوّے سالے خود تو ابدالآباد نہ بنا سکتے .. بدمعاشوں نے آدمی ہائیر کر لیے ہیں، جو نہ صرف بنائیں گے بلکہ ضائع بھی کریں گے تا کہ یہ اپنے چونچ چونچلےکرسکیں!
ورنہ گندم سے کون مَیدا نکالے ،کون آلو کی فصل کاشت کرے، پھر اُنہیں اُبالے اُن میں مرچ مصالحہ ڈالے اور پھر سموسے کی پٹیاں میدے کو گوند کر تیار کرے ، اُس میں وہ مصالحہ لگے آلو اور ہرا دھنیا ، سوکھا دھنیا، زیرہ، انار دانہ اور تھوڑے سے اُبلے سفید چنے ڈال کر اُنہیں تلے ..یہاں تک کہ کوّا بہادر آئیں اور کھا لیں !
کائیں کائیں کائیں
منڈیر پر بیٹھے کوّے نے اُنہیں دوبارہ اپنی موجودگی سے باور کروایا!
لیکن کیا اِن کی زبان اتنی پیچیدہ ہے کہ سموسوں پکوڑوں کے لیے بھی کائیں کائیں کہہ کر بیان کر سکیں ، اُن کے ذائقے ، موجودگی، رنگ اور تعداد کو محض ک، کاف، قاف میں ابلاغ ِمبین کر لیں ؟
ہم نہیں جانتے!
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی انتہائی جامع زبان ہو ، جس میں بنیادی حروف گویا ڈیجیٹل کوڈ کی طرح ہوں جن کی ترتیب نئے معنی تو دے لیکن اپنی أساس میں اُن کا معنی خطابی ہو، مثلاً آو، دفع ہو جاو، کھاو، اڑ جاو ، کوّی وہاں بیٹھی ہے ، وغیرہ!
باقی کے بارہ کوّے ٹاہلی کی دیگر شاخوں پر فکرِ دنیا سے آزاد بیٹھے ہیں،کوئی پنجے تیز کر رہا ہے، کوئی اپنے پروں کو چونچ سے کنگھی کر رہا ہے ، کوئی آس پاس کی سرسراہٹ پر کان دھرے ہے .. الغرض معمول کی کاروائیاں کسی انہونی سے پہلے تک ایسے ہی جاری رہنے والی تھیں۔ ایک دو نیچے کوڑے کے شاپروں پر ہونے والی مہم جوئی سے بیزار بھی لگ رہے ہیں ۔ یہ یقیناً فلسفی ہیں ۔ آپ یہ مت سمجھیے کہ کووّں میں فلسفی نہیں ہیں !
بے شک ہیں ، البتہ اِن سے کوّا برادری بہت خائف ہے ! اولاً تو اُنہیں کسی مہم کا حصہ بنایا ہی نہیں جاتا ہے نہ ہی کسی مہم میں چونچ لگی انسانی ایجاد یا خوار ک کو اُن سے بانٹا جاتا ہے ..کیوں کہ یہ سالے اپنے آپ کو عقل مند سمجھتے ہیں اور بقا کے اصولوں کے برخلاف سبزی خور ہیں ،جو چیل گوشت، قصائیوں ،قصابوں کی دُکانوں اور مردار جسموں سے دور ہی نظر آتے ہیں ..
اب آپ دیکھیے کہ پرندوں یا دیگر حیاتیات کی زبان کو انسانی ادب کیسے بیان کرے ؟
کیا محض جس طور سن سکتا ہے اُسی سماعت کو ،اپنے ہجوں میں محفوظ کرے ، یا پھر اُن کی زبان کو اپنے تمدن، اپنے وقت اور اپنی موضوعیت کا پہناوا دے د ے !
اِس بات کی مزید وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ "کائیں” کہنے والے یہ بدمعاش کوّے روایت کے مطابق ٹھیک بہّتر ہزار سال قبل اَز مسیح میں ہندستان آئے تھے ، تب سے اب تک کے ان کے لِسانی ارتقا سے ہم بے خبر ہیں۔ البتہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اِن کے ماحولیاتی رہن سہن میں خاطر خواہ تبدیلی آئی ہے مثلاً پہلے درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھنے والے حویلیوں ، چبوتروں سے بجلی کی ننگی تاروں تک ہر جگہ بیٹھنے لگے .. لیکن فی الوقت میری مراد خاص طور پر اِن کی خوراک ہے۔
پہلے، مردار جانور، اُن کے بچے، دیگر پرندوں کے ٹوٹ بٹوٹ ، انڈے ، رینگنے اور اُڑنے والے حشرات کی ایک لمبی فہرست اِن کی خوراک کا حصہ تھی .. ابھی دیکھیے کوّے حضرات گھروں کے مرتبانوں سے لے کر کالونیوں کے کوڑا دان، پلوں کے کنارے ملنے والے چیل گوشت سے شہروں کے ندی نالے نالیاں ، برساتیاں، گند کے ڈھیر، چھتیں، گھروں کے دالان، مسجدوں کے مینار، اسکولوں کالجوں کی کینٹینیں ، سڑکوں کے کنارے ملنے والے فاسٹ فوڈ ، مزاروں میں بٹنے والے لنگر کی روٹی .. الغرض ہر چیز میں نہ صرف چونچ مارتے ہیں، بلکہ کھاتے بھی ہیں ..
ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ شہر انہوں نے قبضہ میں کر رکھا ہے .. صبح جاگنے سے رات سونے تک انہی کی آوازیں آ تی ہیں ! سوچ رہا ہوں کہ چینی زبان سیکھنے والے حضرات ایک کوّا زبان سیکھ لیں تو ہمیں زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے اور کووّں کو بھی ، تاکہ اُن کے من بھاتے کھانے ہم اُن کے آڈر پر پہلے سے ہی تیار رکھا کریں جیسے کے دیسی گھی والے پراٹھے !
ایک فاختاوں کا جوڑا دیکھ کر دو جوان کووّں نے مذکر فاختہ کی دائیں جانب نچلی شاخ پر اُتران کی ، اور سامنے بیٹھ کر اونچی آواز میں کہا ، ککاککائیں!! دیگر کوّے سن کر ایک ساتھ کائیں کائیں کائیں کائیں کہتے ہیں .. یہ صاف صاف مڈل فنگر کا اِشارہ تھا اِسے کوئی بھی جاندار سمجھ سکتا تھا۔ گو وہ کوّا جات کی کوّی زبان سے نابلد تھے لیکن ایک ساتھ جب دس بارہ کوّوں نے شور مچایا تو وہ اپنی جبلت کے سائے میں اتنا تو سمجھ سکتے تھے کہ یہاں اُن کی موجودگی کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔
فاختاوں کا پر امن نیا جوڑا کسی قسم کی نوک جھوک سے کتراتا درخت سے اُڑ کر منڈیر پرجا بیٹھا۔ کہتے ہیں فاختائیں امید پرور ہوتی ہیں اور بے سبب کسی سے جرح نہیں کرتیں آپس میں ہی جیتی جاگتی ہیں ۔ یہ صرف فاختاوں کا مسئلہ نہیں تھا آج تک جس پرندے کو دیکھو وہ اِن کووّں کی گلوبل گال گلوچ سے تنگ ہے .. دوسرے کے سامنے سے دانہ کھینچنا، اُن کے گھونسلوں پر قبضہ کر لینا، اُن کے انڈے پی جانا ..
یہاں تک تو یہ پہلے دن سے کرتے آئے تھے لیکن یہ دیگر پرندوں کی جوڑیاں دیکھ کر ککاککائیں کرنا، اُنہیں گالی دینا اور اُن کو دیکھ کر کالی چونچ کھولے کالی زبان دکھانا اور کالے پنچوں سے داڑھی کھجانا آج کل منظر عام پر تھا .. کوّوں کو اِس سے ہرگز غرض نہیں تھی کہ پنکھ پنچھیوں میں یہ حرکتیں معیوب سمجھی جاتی ہیں ..
ہم اب اُن دس کووّں کے درمیان ہونے والے مکالمے کو بعینہ یہاں نقل کر رہے ہیں ..
ککا !
ککائیں .. کائیں
کائیں ..
کا کا کائیں ..
کرا کر، کر آ، کرا ئیں ..
کک کک کا کا کائیں
ک کوئیں کائیں کائیں ..
کا ئیں کوئیں ک قائیں
قااااائیں قا
کوکا کولا کو کو کا
قا کا کاقائیں
قاں ں ں
کو کو کا
کوکا کولا
کائیں
کے کے کے .. ک کوئیں کائیں کائیں ..
کیں کیں کیں ک کوئیں کائیں کائیں ..
کک کک کا کا کائیں
ک کوئیں کائیں کائیں ..
کا ئیں کوئیں ک قائیں . . . .قااااائیں
قا کا کاقائیں.. کک کا کا کائیں
کائیں ں ں ں ں ں ں
کووّں کا مکالمہ جاری تھا میں یہ سارا منظر اپنے گھر کی بالائی منزل سے دیکھ رہا ہوں ..!
آپ کہیں گے کیسا بے ہودہ اور نکّما لکھاری ہے! یہ کیا واہیات لکھ رہا ہے .. کوئی بات ہے جو سمجھ میں نہیں آ رہی .. تو پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ آپ نے کوّا زبان کا مکالمہ محض آنکھوں کو اجنبی محسوس ہونے کی وجہ سے بنا پڑھے سمجھے ہی چھوڑ دیا ہے لیکن میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اُس میں کو کا کولا کی بوتل کا اشتہار بھی چھپایا گیا تھا۔
تا کہ جسے بوریت ہو رہی ہے وہ ماں کی کوکھ سے نکلنے کے بعد کوک کی بوتل پی لے !
یہاں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
ایک تو یہ کہ انسانی عقل کا وہی المیہ کہ جس زبان، شخص، نظریے اور خیال کو نہ سمجھ سکے اُسے یا تو فضول اور واہیات کہے دیتی ہے یا اُسے الہامی و قدسیات کے زُمرے میں ڈال دیتی ہے ۔ دوسری یہ کہ بلاشبہ کوّے یونہی مکالمہ کرتے ہیں صاحب ابھی تو مکالمہ شروع ہوا ہے .. جو کم و بیش بیس پچیس صفحات پر مشتمل ہے قارین چونکہ کوّا زبان سے نابلد ہیں اِس لیے یہاں خلاصہ بیان کیا ہے ۔ اگر کوئی سمجھ سکے تو برائے مہربانی ہمیں بھی اطلاع دے ہم اُسے کوّا زبان پر ہماری ساری تحقیق ارسال کر سکتے ہیں۔
دسمبر ۲۰۱۸ ، کوّا کالونی، کوّیستھان
۔ ۔ ۔ ۔ ۔