Skip to content

نشست 3: نفس کا ڈھول

کہا عیسی نے، پوچھا مُوسی” نے خدا سے، کہا خدا نے فرشتوں کو، کہا ابلیس نے آدم کو، کہ بات میں تمثیل کا جُھول جھولا کیوں ہے؟ کیوں حرف عین معنی نہیں ہے؟ کیوں ہر ظاہر کا باطن ہے؟ استعارے کیوں ہیں، شاعری کیا ہے؟ نثر و نظم کے کیا منصوبے ہیں؟آواز کا ساز سے ربط کیوں ہے؟

کیوں صورت سیرت سے جدا ہے؟ کیا جہاں دیکھو خدا ہے؟ کہ بنی نوع انسان کی جملہ آباد کاریوں نے گنگنایا، اپنے اپنے سلیقے سے آوازوں کو، سازوں کو نکھارا! لَے بنائی، ہونے کا اُدھم مچایا، بھئی سازِ ہستی بج رہا ہے ، تو آپ بھی گا لیجیے ہو لیجیے! مگر آپ کے یہاں صورِ اسرافیل پر انگلیاں برابر قائم ہیں! اُسی کے انتظار میں ہیں کہ صور بجے تو اُدھم مچنا ختم ہو! لیکن اگر وہ ادھم کے باقائدہ مچائے جانے کا بِگل ہوا تو ہم کیا کریں گے؟ کوئی بھی کیا کرے گا؟

مگر جب ہم پوچھے کہ یہ اُدھم کاہے کو؟ تو کوئی منچلا کہتا ہے کہ جی ، سازِ ہستی وغیرہ کچھ نہیں ہے اور صرف نفس کا ڈھول برابر سے پیٹا جا رہا ہے! بجنے اور پیٹنے میں بھی فرق ہے! اُسی پر خاموش “ہو” جاتے ہیں، ہوئے جاتے ہیں! تو جواب یہ ہے، کہ آسان بھاشا کتنی مشکل ہے؟ ہم سادہ ہوئے تو “تجریدی” ہو گئے! چلیے جو بھی ہو ٹھیک ہی ہو! ٹھیک ہی ہے! جی صاحب ہمرا ڈھول ہمری کھال سے بنا ہے! ہستی کا ساز ، سازندے چرا کر لے گئے ہیں، ہمرا ڈھول پیٹ لیجیے! آپ کے اُدھم میں خلل نہ آئے!

ہم وہاں پرے بیٹھ کر دیکھتے ہیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے