
جی صاحب، باعثِ تحریر جو تھا، وہی تو باعثِ تاثیر تھا۔ اب کہ ایک دیرنہ عقیدت مند نے ایک نئے سالک سے کہا، اُن سے نہ ملیو! اُن سے ملنے والے پر “اثر” ہو جاتا ہے۔ یہی صورتِ حال ہماری تحریروں کی ہے ! ابھی اتنا ہی سوچے کہ شکیل بداؔیونی آپ کے حضور فرمائے ؛
؎ کیا مجال اُن کی نہ دیں خط کا جواب
بات کچھ باعث تاخیر تو ہے
ہم لپک لیے اور عرض کیے ؛
؎ ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاثیر بھی تھا!
ایسے میں شیخ ذوقؔ کہے؛
لیلیٰ کا ناقہ دشت میں تاثیرِ عشق سے
سن کر فغان قیس بجائے حدی چلے
اور پوچھے کہ یہ بتائیے باعثِ تاثیر کہیں عشق کی تاثیر تو نہیں ؟ تاثیر تو تھی ہی ثناگیر بھی تھی … وہ حدی بجاتا قیسؔ کون تھا؟ آپ سوچا کیے ۔ قیس ہے اور لیلائیں الف! آہ صاحب، ابھی کتنا کچھ کہنا باقی ہے..
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آپ سب سے“تاخیر” کا سبب پوچھے تو باری منیر نیازیؔ کی آئی ؛
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے ؟
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ! !
جی صاحب!
سفر کی مسافتوں میں اٹا ہوا جو شاہ سوار تھا، وہ خیر سے تھا۔ آپ سمجھ گئے کہ خیر میں ہے تو تاخیر میں ہی ہے .. اتنے میں داغ دہلویؔ نے لقمہ دیا؛
؎ نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
واہ صاحب ، اب جہاں “آہستہ آہستہ”، “ آتے آتے “ کا ردیف ہے تو وہاں کیوں نہ تاخیر ہو!
آپ خاموش تبسم فرمائے ، کہے تاخیر ہو گئی ہے ، تو ایسا کیا دوش! ایسے میںایک جواں مرد نے تائد کی ، اور کہے ؛
؎ ہم نے تاخیر سے سیکھے ہیں محبت کے اصول
ہم پہ لازم ہے، ترا عشق دوبارہ کر لیں
جی صاحب! دوبارہ کر لینے میں کوئی ہرج نہیں تھا! ایسے میں احمد فرازؔ صاحب کی ایک مشہورِ زمانہ غزل کا مقطع یاد آ گیا ،
؎ کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
مگر آپ دوسرا مصرع کچھ یُوں پڑھے ،
؎ اگر تُو کتاب ہے تو تحریر کر کے دیکھتے ہیں!
۔۔۔ تحریر، تاخیر، تاثیر۔۔۔۔