کچھ تو ایسا تھا اُس فلور نمبر تیرہ پر، جو وہاں سے یہاں دوسرے فلور پر، آتے آتے کچھ ہو سا جاتا تھا صاحب! ہم نے یہاں بھی زمانے دیکھے، دیکھ ہی لیے تھے! احیا، رینیسانس، ریفارمیشن، عالمی جنگیں، اور اُن سب میں شامل شریکِ حال جرمن قوم! لیکن کوئی بھی ہماری تنہائی میں مخل نہیں ہو سکتا تھا! اجازت نہیں تھی! اجازت مانگی ہی نہیں گئی! اجازت ملی بھی نہیں!
ہم نے تو مانگی تھی ناں، آپ سے اجازت!
آپ کی ہی اجازت سے ہونے لگا تھا اور ہو رہا ہوں!
اِسی اجازت نے تو ہمیں نالائق لکھاری بنایا ہے! ہم ہیں آپ ہیں اور اِسی سے کائنات ہیں! کبیر داؔس فرمانے لگے؛
؎کبیرا عشق کا ماتا، دوئی کو دور کر دل سے!
ہم نے دل و دماغ کی دوئی کو ہی دور کر دیا. . کیا ہے کہ فرعائنہ ِ مصر مردے سے دماغ نکال کر حنوط کرتے تھے، دل رہنے دیتے تھے صاحب! ہم سمجھے کہ وہ بھی دوئی کا ہی شکار تھے! ہم کہتے ہیں کہ نکالو تو دل و دماغ دونوں نکالو! مطلب اگر دنیا چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ کیوں پالتے ہو؟ چھوڑو! کہو، بھاڑ میں جائیں، کہو جو کؔبیر کہتے ہیں کرو جو فقیر کرتے ہیں کہ ، بھاڑ میں جائے سب کچھ،
؎ جو چلنا راہ نازک ہے ، ہمن سر بوجھ بھاری کیا!
ہائے کبیر داس کیا جانتے تھے، کہ یہاں سر پر بوجھ ہو نہ ہو، ملک کے ہر ہر شہری پر قرض ہے صاحب! قرضوں کا بوجھ! ہونے کے بوجھ پر مزید بوجھ ہی ہے۔ کؔبیر کا کہا نہیں سمجھ پائے، ورنہ قرض خوار کو تو قربانی بھی جائز نہیں اور حج عمرہ تو دور کی باتیں ہیں صاحب! کیا ہے کہ قرض لے کر شادی کی جارہی ہے، کیا ہے کہ قرض لے کر ملک چلایا جا رہا ہے. . ریفرنس کے لیے: آیا جے غوری! !!
غوری پر بھی غور ضروری ہے! ہر کوئی غوری پر ہی غور کر رہا ہے، کرتا جا رہا ہے۔ صاحب! ہم بھی غوری پر ہی غور کر رہے ہیں.. لمبے لمبے ، بڑے بڑے غوری صاحب! پوچھا یہ کہاں کے ہیں! فرمایا ملکِ کانگو کے ہیں۔ توبہ ہے صاحب! جس کے پاس غوری ہے وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہونا چاہیے سیاپا ہی ہے.. ہو تو مصیبت ، نہ ہو تو مصیبت!
اللہ حافظ!! پوچھنے لگے کدھر جاتے ہیں!
کہا ، غوری پر تھوڑا غور کر کے ابھی آتے ہیں!
۔۔