Skip to content

دوسری اجازت!

تو صاحب ! اِس معمہِ حیات کو آپ کے روبرو کرنے کی آج دوسری نشست ہے! آج ہم یہ بات کریں گے، کہ ہمیں کیوں بات کرنی چاہیے! مطلب مجھے ، آپ کو، اُن کو، اور وہ جو اُن کےا ٓس پاس ہیں، اُن سب لوگوں کو، کہ ہمیں کوئی بھی نغمہ کیوں گانا چاہیے؟ کیا چاہنے میں کوئی کوتاہی ہے، یا کوتاہی ہوئی ہے؟ کون جانتا تھا؟ کون جان سکتا تھا؟ مطلب ” جانتا ” اور ” جان سکتا ” ، بھی ایسے ہی معمے ہیں جیسے کہ ” چاہتا ” یا ” چاہ سکتا ” کے ہیں! خیر ، آپ اب کہیے گا کہ ، یہ کیا موضوع ہے ، کیا کہنا چاہ رہے ہیں ، ہم جانتے نہیں! ہم عرض کرتے ہیں کہ جاننے اور چاہنے کے ہی مسائل ہیں۔ خیر، جس لکھاری کے سر پر نالائقی کا طبلہ بجا ہو اُس کے قاری کو کیا کوسنا۔ تو خیر ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ ہمارے مسائل کچھ اور نوعیت کے ہیں ، بتانے ، بجانے لگے ناں تو گال گوئیا ہو جائے گا، بلا وجہ کی تان ٹوٹے گی!

ارے تو آپ کہیں گے کہ تان کیوں ٹوٹنی چاہیے؟ ہم کہتے ہیں کہ یہ کون جانیئے!

۔۔ اِس ہلکی پُھلکی ورز ش کے بعد عرض ہے کہ فقیر کو کچھ کہنا چاہیے مگر کیا ہے کہ جانتا ہے کہ چاہنے اور جاہنے کے مابین ایک خلائے لا ینحل ہے، اُسی بابت ہم اپنی نالائقی کا ثبوت لکھاری بن کر اور آپ قاری بن کر دیتے رہیں گے؟ دے سکیں گے؟ یا اِس پر بھی کہیں کہ کہ کیا کرنا ” چاہیے ” ، تو ہم عرض کریں گے کہ آپ کی ایسی حرکتوں کی وجہ سے ہم خاموش ہیں کہ اوّل تو کچھ بھی کہننا سننا بے کار ہے، بد کار ہے۔ اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ جی بے ہو یا بد ہو، ” کار ” تو ہو، ” کار ” ضروری ہے!!! تو ہم کہتے ہیں کہ یہ کار نہیں، ایک کاری ہے، اور بہت ہی ” کاری ” ہے۔ آپ کہیں گے کہ قاری کا بھی تو سوچو ، تو ہم کہیں گے کہ ہم نالائق ہیں، نالائق لکھاری ہیں!

خیر ، بحث تو ابھی ہو گی، اور بہت تفصیل سے ہو گی، لیکن کیا ہے کہ اجازت درکار ہے، ریفرنس کے لیے” ادب ہے اندررر“!

کہ کیا ہے ! آدمی اگر انفس و آفاق میں تفریق کی فٰ سے دور بہت دور جا چکا ہو، تو اپنے ساتھ ہم کلامی میں بھی مودب ہو جاتا ہے، یا ہو جانا چاہیے ! تو بس یہی سوال جب ہم عمر بھر خود سے کیے ، اگر آپ جیسے نالائقوں سے ہم کلامی ہو بھی جائے تو، آدمی خود کو دوسرے کا سوا نہ سمجھے، اُس سا عین ہو جائے! جو بھی ہو ، ہما دم ہو ، ہما ہم ہو، ہم ہی ہو! نصرت صاحب نے دم دم علی علی قوالی پڑھی، ہم کا اتنا ہے کہ ہم ہم علی علی کا ورد انفس و آفاق میں سنائی دیتا ہے، کہ ہم نے سوا جانا ہی نہیں ، چاہا ہی نہیں، تو اُس میں ا ٓپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو توحید پر قائم رہنا ” چاہیے “، ہم کہتے ہیں کہ چاہے اور جانے کی دوئی تو آپ اپنائے ہیں، ہم تو چاہنے، ماہنے اور جاننے سے بھی ، عین اور غین کو ، "عین “ ہی دیکھ پائے ہیں، اگر ہم میں فالٹ ہے ، تو ہو سکتا ہے، فالٹ آپ کی طرف بھی ہو، اور اگر آپ کی طرف سب ٹھیک ہے ، تو اِدھر سب کچھ ٹھیک “ہونا چاہیے “۔ تو کبھی فرمائے گا، تو عرض کر دوں گا، کیا ہے کہ سبحان اللہ، کوئی کیا بیچتا ہے، کوئی کیا بیچتا ہے، مطلب یہی کچھ ہے ناں ، اِس بک بک چخ چخ میں، کہ یہ مت کہیے، وہ مت لکھیے، سب کی بک بک سنیے ، خاموش رہیے، پاگل ہو گئے ہیں کیا؟ چھوڑیں رہنے دیجیے! مگر کیا ہے کہ باولے ہو گئے ہیں، ہاں ہم ہو گئے ہیں باولے، کیوں ہوئے ہیں با ولے، بھئی! بلاول نہ کہوں ، باجوہ نہ کہوں، تو اپنے نامِ نامی ب سے باولے ہو گئے ہیں! ہاں ہوتا ہو گا کوئی حساب کتاب! یہی حروف شناسی کا، علم الاسما کا، کیا ہے کہ ہم نالائق ہیں، زیادہ نہیں "جانتے “ ، زیادہ جاننا چاہتے ہیں! لیکن اُس کی لیے اجازت کے خواستگار ہیں! (ریفرنس کے لیے ، فقیری ہے اندررر!)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے