Skip to content

نشست صفر

جی تو صاحب، آج سلسلہ وار تحریری نشست کا باقائدہ آغاز کیا جاتا ہے، خیر، آغاز ہم نے کیا ہی کرنا تھا، آغاز اور انجام کی دونوں کلائیاں اُنہوں نے ہم سے باندھ رکھی ہیں ، اور خود ہیں کہ آغاز و انجام کے کنگن پہنے ہیں.. کیا نظارہ ہے! تو خیر عرض یہ ہے کہ آپ میں سے، آپ نے، اُنہوں نے ، سبھی نے اپنے طور ہماری یہ نادان غفلت، ایک نالائق لکھاری ، کہ جس کی دُرگت بن چکی ہے، یا بن رہی ہے! اب سمجھیے ناں، کہ نادان اور غفلت کا بھی کیا تعلق ہے.. غفلت کہ جس کا فاعل غافل ہے، ہائے! اب آپ کہیے گا کہ میاں خود سے کچھ لکھنا بولنا بھی تو سیکھو، کیا غفلت و غافل کے مابین موجود غلاف پر لپکاتے ہو! تو کیا کہیں ، صاحِب، آپ نہ ہوتے، یہ جہاں نہ ہوتا، تو کیسی بے رونقی سی رہتی، مطلب آپ کا سر کھانے کے سوا، ہم سا نادان نہ ہوتا ، تو آپ کو اُداس کون کرتا، تو ہمیں بن بتائے چلے آئے، اور ہمیں کہا گیا کہ لیجیے آغاز ہوا جاتا ہے، لکھیے، اور ہمیں بھی اپنا لکھا دکھائیے ، سنائیے اور ہمیں بھی ستائیے تو ہم ابھی اوزار ساز ٹھیک کر لیں؟ کیا ہے کہ گوئیے ہیں، مگر بے تان کے، ایسا مانیے کہ اِس تار و پُور کے گُن گُنے میں ، تار تار کی بات ہے صاحب، کوئی سہ تارہ ہوا، کوئی دو تارا، کوئی یک تارہ تُنکتا پھر رہا ہے ، اُلٹا پلٹا گا رہا ہے ، تو ہے! مگر ہم کا تو ایک تارہ بھی نہیں، ہم کو تو ہلال بھی حلال ہی ملا تھا.. حلال کا بھی حلالہ کیا ہوا.. ہم کدھر جاتے! تو یہیں آ گئے آپ کے پاس، اپنے پاس! کہ غافل تو ہیں ، مگر اکیلے بھی ہیں، مطلب اگر غفلت صبحِ اوّل کی کسی نادانی کا نتیجہ ہے تو ہمرا کیا دوش؟ اور اگر نادانی کی وجہ غفلت ہے تو ہم کیا جانیے!

کہیے گا، کہ کیا یہاں وہاں کی دائیں بائیں کی باتیں کرتے ہو، تان ہے نہیں اور تمہاری تاریں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں، بل کہ اُلجھی ہوئی ہیں، سجھاو، سناو، بھئی گاو! تو کہیتے ہیں کہ صاحب، ایسی جلدی کیا ہے، کہے تھے ناں کہ ساز ٹھوک بجا کر "چیک ” کر رہے ہیں! احباب میں سے سنی ان سنی نے، اجازت بہ زبانِ خلقِ خدا دی ، کہ آپ کا لکھا اچھا لگا، بھائی، سرکار، یا پھر ڈاکٹر صاحب کہہ کر ، کہ جاری کیجیے گا، سنائیے گا، ہم پڑھا کیے ، دیکھا کیے ہیں!

تو والی جناب! دیدہ و دل فرشِ راہ ہے ، مگر راہ اور راہنما کی دوئی بھی کرب ہی ہے، کون جانے کہاں راہ اور راہ نما میں ہم سا کوئی نما نما ڈگمگا جائے! کیا ہے کہ قدم ڈولتے ہیں ، کیا ہے کہ سر پر دودھ کا لبالب بھرا مٹکا ہے ، کیا ہے کہ کمریا پتلی ہے، کیا ہے کہ پل صراط پر پہلا قدم ہے، کیا ہے کہ دائیں بائیں کچھ بھی نہیں ہے، سراسر نفی ہے، کیا ہے کہ دو آنکھوں کے مابین ایک مبہم سا راستہ ہے، جس فریم پر چلتا چلے جانا، ہی صراطِ مستقیم ہے کیا ہے کہ قلم کی سیدھ میں ، اور سیدھ میں تختی کے بیٹا، لکھو !!. . .سین سے سیدھ سواد، سو باتوں کی ایک بات! وہی بات جو ہم کرنا چاہ رہے ہیں، آپ پوچھیں گے کیا گاتے ہو؟ ؟؟ تو ہم عرض کرتے ہیں نہیں صاحبِ ابھی تو راگ لگا رہے تھے! صاحب کہتے ہیں کہ سواد بھی صاد ہی ہے کیسے سواد کی بات ہے!!! ہائے کہ سواد و اسود میں ایک حجر ہی تو ہے، جو مثلِ ہجر ناپید ہے، کہ وصال ہی وصال ہے، ایک مسلسل وصال ، کہ جس میں ، یہی ابھی کہ ابھی، ایک دوام ہے ایسا ہی جیسا خالد و خلد میں ہے! تو آپ تعجب سے دیکھتے ہیں کہ یہ کہنا چاہتے ہیں یا سننا چاہتے ہیں .. وصال کا سواد اور ہے اور ہجر کا ہونا اور۔ ہم کہتے ہیں کہ ہ ہجر ہو یا “ واو” وصال ہو، جو بھی ہو، بہ کمال ہو! بے مثال ہو!

مثال سے ، ثانی لا ثانی سرکار یاد آ جاتے ہیں، خدا جانے کون تھے ، ہم نے بچپن سے ایسے القابات کے نام دیکھا کیے ، خدا جانے کون اصحاب تھے، یا ہیں ، یا ہونگے اور ہوتے رہیں گے! ہوتے رہیں بھی تو ہوتے ہوں! ہمیں نام سے نہیں نام کے حسن سے واسطہ ہے، کہ ثانی ہونے اور نہ ہونے کے باوجود “ ہیں”! اِس سے ہم خدا کی شان سمجھتے ہیں جو اپنی جناب سے ایسی موجودات کو تخلیق فرماتا ہے جو ثانی نہ ہونے کے باوجود ثانی ہو سکتے ہیں اور ہو جاتے ہیں۔ جب کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ثانی کوئی نہیں ہے، ثانی ہو سکتا ہی نہیں، سمیع اور بصیر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جیسے ذات اور کلمے میں، یا کلمے اور کلام میں وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف ثنویت کے عقائد بھی اَز منہ قدیم سے موجود ہیں، کہ خیر و شر، نیکی بدی، اندھیرا اُجالا ، اوپر نیچے کی دوئیاں ہیں، انہی سے مزین ہے دنیا جہان، انہی سے جنت اور دوزخ کی پیمائشیں ہیں۔ دو ہی ہیں اور دو ہی ہونگی۔ ہم کہتے ہیں کہ دو کا ہونا ہی دوئی ہے، ہونا بھی نہ ہونے کو ساتھ لاتا ہے، ہر شے پروردگار نے زوج میں پیدا کی ہے تو ہمرا زوج کیوں نہیں، کوئی جملہ کسّ سکتا ہے! تو ہم کہتے ہیں کہ ذرا رُکیے، (یہاں زرا کی بجائے زیرا لکھنا چاہتے تھے، لیکن ایک بڑے مکرّم اردو کے اُستاد ہیں ، آپ صاحب جیسے ہی ہیں، ہمیں اکثر تصحیح اور اصلاح فرماتے ہیں کہ "آپ کے ہجے درست نہیں ہونگے، آپ غلطی سے زیرا لکھ گئے ہیں ، درست املا لکھیے! تو ہم اُن سے جگھڑنا نہیں چاہتے تھے کہ ہماری طرح وہ بھی نادان غفیل ہی ہیں، اُن کو کیا کہتا کہ ایسی آزادی چاہتا ہوں بولنے کی اور اُسی طرح لکھنے کی بھی ، کہ کیا ہے کہ پاوں ڈول رہے ہیں ،کیا ہے کہ دونوں پیر دونوں دوئیوں پر ہیں ، کیا ہے کہ دوئی کو دوئی سمجھا تو دوئی میں دو ہی رہا، کیا ہے کہ ہونے اور نا ہونے کے مابین ہونے کی "ڈیوٹی” ملی ہے، تو ہو رہے ہیں .. اب چونکہ اجازت مل گئی ہے تو، یہیں قالین لگائیں گے، یہاں یہی بات چیت بھی ہو گی، اپنی تو محفل سجنے والی ہے کہ ساز سازندے منگوا لیے تھے، بلوا لیے ہیں، آپ، اب کے بار ہم آپ سے اپنی مرضی کا ہی گانا سنانا چاہتے ہیں ، کیا ہے کہ سنگر ہے اندرر!

سنگر ہم کہاں ہو سکتے تھے صاحب! کہ لکھاری نالائق ہونے کے ساتھ ساتھ نادان بھی ہے، دانے، دانا دانے اور تھے صاحب وہ دانہ دُنکا دَبا چبا رہتے تھے ، وہ دو تاروں والے تھے ، سہ تاروں والے تھے .. وہ اُپری جات کے لوک سماج تھے، ہم تو بس ابھی آئے ہیں، ابھی تو گال گلوری اور پان پشوری بھی چلے گی، ابھی تو خوب ڈھول ڈھمکا ہو گا، کیا ہے کہ ابھی وہ بھی آئیں گے، پوچھیے کون ؟ وہی ہجر اور وصال ، وہی دن اور رات، وہی دونوں کلائیاں بندھی ہیں، جن سے یہ کائنات بنتی چلی جا رہی ہے ، میری اور آپ کی صاحب!! جی صاحب! صاحب کی اور کتے کی ۔ صاحب کی بھی دوئی ہی ہے .. آپ کی آہ نکل جاتی ہے، کوئی اب تک بد حواس ہو کر باقی بکواسیات سننے لگ پڑا ہے اسکرول کر کے کب کا فوت ہو چکا ہے۔ تو ہم اُن بیماروں کو بھی کہتے ہیں کہ ٹھہریے رکتے جائیے، گانا تو سن کر جائیے! تو وہ کہتے ہیں سنائیے! ہم کہتے ہیں کہ ارے وہ تو پھر کبھی سنائیں گے، ابھی تو کہا ناں ساز ٹھوک بجا کر "چیک” کر رہے ہیں، ریفرنس کے لیے تلاشی ہے اندررر! ظاہر ہے چیک کیے بغیر اور چیک کروائے بغیر تو کلام چل نہیں سکتا، نکاح ہو نہیں سکتا! ہائے اب نکاح میں بھی دوئی ہے، دو کا ہی ہو سکتا ہے، ہم کہتے ہیں کہ دو کا نکاح ہی کروانا ہے تو ایک ہی ٹھیک ہے، آپ کہتے ہیں نہیں نکاح دو کا ہوتا ہے اور دو سے بھی ہو سکتا ہے، ہم لپکتے ہیں کہ ارے صاحب واہ! یوں تو دوئی کی بھی دوئی نکل آئی! آپ ہمیں سینہ کوبی کرتے دیکھ سکتے ہیں، کہتے ہیں کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ناں! ہم کہتے ہیں کہ جی جی بس یوں ہی کھنگار رہے تھے.. کیا ہے کہ صاحب، سر پر دھرا ماہی مٹکا، کیا ہے کہ صاحب، اپنے ہونے کے واویلے مچے ہیں، کیا ہے کہ ہم ہونے لگے تھے، ہونا جاننے کے لیے ، نہ ہونا سے اُچھلے، ہونا میں آ گرے ہیں، اب یہاں بھی وہی نہ ہونے کی رٹ لگائے ہیں، ہونے نہ ہونے کی تاروں سے ہی تو ساز ِ ہستی بجتا ہے ، کیا ہے ہمری تاریں الجھی ہوئی ہیں، کیا ہے کہ ہم الجھنے لگے تھے ..ہم آپ کو ایک ایک لفظ پر اپنا الجھاو بیان کر سکتے ہیں، آپ کو بھی کچھ سنا سکتے ہیں!!!! تو ہم کہیں گے کہ بھی "چیک” کر رہے ہیں.. آپ تسلی رکھ کر بیٹھیے ، ہم کا آنگن ذرا ٹیڑھا ہے۔ وہاں سے ایک بھاگ کر آتا ہے اور کان میں کہتا ہے کہ سیدھے ٹیڑھے کی بھی دوئی ہے، ہم سنتے ہیں اور بلکنے لگتے ہیں کہ ہائے بدھو! کانوں کی بھی دوئی ہے.. واہ! سبحان اللہ! دوئی ہے انددررر ! ہر دوئی کو سلام، ثانی کو لاثانی کو سلام! اب دعا سلام و یا سلام جواب! جواب کے ساتھ ساتھ سوال کی بھی دوئی ہے۔

بیڑہ ترے تمہارا کہتے صاحب جوتی پکڑتے ہیں ، ہم دیکھ کر ہنستے ہیں کہ دیکھیے تو، جوتی کی بھی دوئی ہے! دوئی کی دُھونی دینے کے لیے ناک کے نتھنے بھی دو ہی ہیں! آپ کہتے ہیں کہ ٹھیک سے "چیک ” کر لو! جی صاحب! تو یہاں تک ٹھیک ہے؟ کہ دوبارہ شروع سے شروع کروں ؟ آپ کہتے ہیں ، واہ سرکار!! ہم کہتے ہیں دو بار بھی، بار کی دوئی ہے! آپ کہتے ہیں ذوالفقار ہے اندررر! ہم کہتے ہیں اندر باہر کی بھی دوئی ہے! آپ فرماتے ہیں بس کرو دوئی کی! دوئی کی ماں کی، ہم کہتے ہیں ماں باپ کی بھی دوئی ہے، آپ فرماتے ہیں بہت خوب اب تو راگ بیٹھنے لگتا ہے ، ہم کہتے ہیں کہ اِسی دوئی او ای، ای ای ی ی ی ی یی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی میں ہی کلام شروع ہو گا، کلام الف سے ہو نہیں سکتا ، الف یک تارہ ہے مکمل ہے، ہم “ی” سے تان باندھتے ہیں! یہ “ی” یہ ہی ہے! وسلام!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے