Skip to content

نشست 9: شاہ کے مصاحب!

بنے ہیں آپ کے مصاحب!

جی، شاہ کے مصاحب! تو کیوں نہ اتراتے! ؟

منظر بدلتا ہے، اب کہ اِترارہے ہیں، پسینے سے شرابور، یعنی تر ہیں، اُتر رہے ہیں، جھک رہے ہیں، ایسے اُترنے میں ایسے جھکنے میں کہیں کوئی سرزنش نہ ہو جائے کہ دُھنکتا سر، لچکتی کمریا ، پھسلتا پیر اور اِس پر تر ہیں، اُتر رہے ہیں، ایسی گومگوں صورتِ حال میں ہم کیسے اتراتے صاحب! اُترنے میں تواتر آ جائے، برقرار ہو جائے تو کیا کہنے! کیا ہے کہ سیماب ہے، آب آب آب ہے!

اِس تین تارے والے بھیّا سے پوچھو کیا فرماتے ہیں؟ جی صاحب! فرماتے ہیں کہ اِترائیے! یعنی اِدھر آئیے! اب آپ دیکھیے ناں صاحب! کہ ہجے محفوظ کر لیے، تلفظ کیسے محفوظ ہوتے! تلفظ پر جھگڑا کاہے کا! کیوں ہر کسی سے نالاں ہو؟ کل حرف سے ناراض تھے تو اب کہ مار ہجوں کو پڑے گی؟ نہیں نہیں، ہم تو بس یہی کہنا چاہ رہے تھے کہ کوئی وآئس رِکاڈر نہیں تھا، کسی کے پاس! ہوتا تو آواز کو اُن کے اندیشوں کے ساتھ محفوظ کر لیتا! اب کیا ہے کہ اِترائیے ، اِدھر آئیے تک تو ٹھیک تھا، مگر فرمانے لگے کہ اِتراتے ہوئے اِدھر آئیے !!

ارے واہ صاحب ! کیا کہنے! ہم آنے لگے صاحب! ادِھر، جی اِدھر ! اور بہ خدا اِدھر آتے ہوئے ، اُدھر نہیں دیکھے! اِدھر ہی دیکھے صاحب! آپ کی طرف! اب دیکھنے دیکھنے کے بھی مسائل ہیں، اور نظر نظر کی بھی بات ہے! ہے تو ہے! مگر آج کا موضوع اِترانا ہے، اتراتے ہوئے اِدھر جانا ہے، اُدھر آنا ہے! صاحب آپ نے اردو کے بطن میں آشیاں رکھا ہمارا! کیا ہے کہ آشیاں پر ، بجلیاں ہیں اور نشیمن کو آگ لگی ہے! بک بک کی آگ! بھونکنے کی لت! بھونکتے ہیں صاحب! باولے ہیں صاحب! لیکن بڑے ہیں تو بھونک لیتے ہیں! ہم چھوٹے ہیں تو بِلک لیتے ہیں! کیا کیجیے؟ کیا کہیے! فرمائے کہ ادب سے محبت ہے اور ادب سے ہی نصیب ہے! یعنی ادب کو محبت کا پہلا قرینہ کہا گیا، با ادب کو بانصیب فرمایا گیا۔ ہم ادب کے ہی شاگرد ہو گئے صاحب! ادیبوں کی نذر ہو گئے !

کیا دھکم پیل ہوئی کہ کچھ نہ پوچھیے! اِک طرف کو ہو لیے تو کیا دیکھتے ہیں سینہ کوبی کرتے کچھ لکھاری دِکھائی دیے ! وہاں پہنچے تو فرمایا گیا یہاں جون صاحب کی مجلس ابھی اختتام پذیر ہوئی ہے! آپ کچھ دیر سے آئے ہیں ! آگے سامنے چلے جائیے ! جہاں پاکستان کے جلیل القدر ملحد بیٹھے ہیں! وہ سینہ کوبی نہیں کرتے! وہ ریلکس ہیں ! سبھی مدعایانِ حُبِ الہ تھے، سبھی آپ کا چرچا کیے تھے، سبھی جیّد عالم تھے صاحب! باریش و با اِرشاد! منبروں پر کوّئے نوچ رہے تھے اور ایوانوں پر گدھ منڈلاتے تھے صاحب، گجرات کے تھے۔

ایتھنز لُٹ گیا صاحب! روما جل چکا تھا! اور اِن صدموں میں بڑا صدمہ ، پرانے کتابوں کے پھٹے اوراق میں کہیں حاشیوں کی گمشدگی کا تھا صاحب! حاشیے ، حجتیں، تفاصیل اور تفاسیر ! سبھی کی گم شدگی کا اعلان تک نہیں ہو ا تھا! سبھی خاموش تھے صاحب! سبھی کے ہجے گڈ مڈ ہو گئے تھے ! اِسی لیے کوستے ہیں مُوئے ہجوں کو! کہ باولے ہیں، ہنسی کرتے ہیں، “ہ” اور “الف” کو ہی دیکھ لیجیے ! اِن کا ایک ساتھ بیٹھنا “جائز” نہیں! یہ کیا ہے؟ ایسی باتیں کرتے ہیں؟ جی، ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ “ایسی باتیں کرتے ہیں؟؟” مُوئے ہجے! صاحب! کیا ہے کہ ہمارا “واو” تو موجود ہے لیکن اُس کے تلفظ بگڑ گئے ہیں ، قبلہ صاحبزادہ صاحب کی چاکری نصیب ہوئی! ہم جانتے تھے کہ ہجو کو ہجوّ پڑھنے کے مسائل کیا ہیں کیا نہیں ہیں! تصحیح فرمائے گئے کہ “ہجو” کو ہَجْو کہتے ہیں، تلفظ کے مسائل ہیں، آج تلفظ بیمار ہے! آج لہجہ بھی موجود نہیں، آج صرف ایک” لحظہ“ آیا ہے! آج اِسی سے بہل لیجیے !

فرمانے لگے کہ کیا بکتے ہو؟ ہم کہتے ہیں والی جناب! ہم کون ہیں کہ بکیں! ہم تو صرف بلک رہے ہیں! بکنے والے آگے ملیں گے! جی ساتھ والی دوکان پر چلے جائیں ! یہاں پہلے ہی بہت رش ہو چکا ہے۔ اب فرمانے لگے کہ “رش” سے مراد کیا ہے، اردو والا یا انگریزی والا، یا اردو میں انگریزی سے آیا ہے، کیا اب یہ اردو یافتہ ہو چکا ہے؟ دوسرا، کہ گجرات تک رش ہوتا ہے، اور گجرات سے اوپر جملہ بالائی علاقاجات میں رش “لگا” ہوتا ہے۔ جیسے لاہور میں کپڑے “پہنے” جاتے ہیں، پنڈی میں کپڑے “لگائے “ جاتے ہیں اور کلر سیداں میں کپڑے “ڈالے” جاتے ہیں۔

ہم سمجھے کہ کسی تار، دیوار پر ڈال کر آئے ہوں گے، اُنہوں نے “پہن” رکھے تھے صاحب! اب معیار بنانے والی آنٹی موجود نہیں تھیں۔ کہ ہمیں سِکھاتی سمجھاتی کہ ” ت“ اور” ط “ کا تلفظ کیا ہوتا ہے! ہمیں تو سمن آباد میں پیٹتی آنٹی “بشارت” نے اِسی واسطے پیٹا تھا کہ ہم نے “شین” کے شوشے بڑھا دیے تھے اور “چ” کے نکتے پانچ کر دیے اور بتایا بھی کہ آج سے ” چ“ کے نکتے پانچ کر دیجیے! یا بھی “خ” پر تین نقطوں کا تاج پہنائیے! ہم کو پیٹا کیے صاحب! اِسی لیے ہم میں اور “ہ” کے ہجوں میں ناراضگی ہے۔ جی، بہت سے ہجے اِسی وجہ سے آج کام پر نہیں آئے! ارے آج تو ، اِتوار ہے! آج کام کاہے کا؟ ہماری چیخ نکل گئی ، کہ اِتوار میں بھی تواتر ہے، اور تواتر میں تڑپتے، ترستے، اُترتے جانے کا حکم ہے! اُتر رہے ہیں صاحب آ رہے ہیں! اپنی پکار میں رکھیے، اپنے پیار میں رکھیے! ہم ذرا بلک لیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے