Skip to content

نشست 7: بُھٹہ صاحب!

بُھٹہ صاحب ہمارے، یا ہم اُن کے مصاحبوں میں سے ہیں! کیا ہے کہ بہت یاد آئے ہمیں! کہا بھی تھے کہ ابھی کے ابھی ہیں، یہی کے یہیں ہیں! لیکن وہ ہمیں دور پاتے ہیں! ہم اُن کو چھوٹے نظر آتے ہیں! اب آپ کہیں گے کہ اِن میں کیسا ربط ہے؟ ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ واصف علی واصف سرکار فرما گئے ہیں کہ کوئی شے چھوٹی تب لگت ہے جب اُس کو دور سے دیکھیں یا دیکھیں غرور وا سے !!اور یہ چھوٹے بھی عام، سادہ والے چھوٹے نہیں! بلکہ کسی چھپڑ ہوٹل یا ٹی اسٹال پر کام کرنے والے ” چھوٹے“ سا چھوٹا! اوئے چھوٹے ، پانی لاو! چھوٹے !!! میری بات سنو!! اوئے چھوٹے تنخواہ کتنی ملی؟ چھوٹے تیرا باپ چل بسا ہے ! چھوٹے اب تیرا کوئی نہیں ہے! چھوٹے تُو مر گیا ہے!

چلیے چھوٹے ہونے میں یا چھوٹا سمجھے جانے میں کیا ہرج ہے؟ ہم نہیں جانتے! البتہ اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہم چھوٹے ہیں ، بہت دوری سے دیکھا جانے پر آدمی چھوٹا ہو ہی جاتا ہے، چھوٹا! ہائے بہت، بہت دوری سے تو بہت ہی چھوٹا ہو جاتا ہے!!! تو اوّل تو وہ یہ گمان کیے ہیں کہ ہم ملک میں نہیں، شہر میں نہیں، کہیں پر بھی نہیں بستے ہیں.. کیا ہے کہ ہم بنجارے ہیں! بن باس بھوگ رہے ہیں، ہم بَن جا رہے ہیں! بنائے جا رہے ہیں ! بننے بگڑنے کے اِن مرحلوں میں کوئی “شے” بڑی یا چھوٹی تو ہوتی رہتی ہے، دوری نزدیکی آتی رہتی ہے ، ریفرنس کے لیے : گردش ہے اندررر!

تو عرض یہ ہے کہ اہلِ نجوم کے یہاں، یا حلقہ علومِ افلاکی میں ستاروں کا بہت عمل دخل ہے! اب لڑائی شروع ہو جائے گی! اور بحث دور تک جائے گی! لیکن کیا ہے کہ گھر سے تو نکل ہی پڑی ہے ! جائے گی تو دور تک جائے گی! دور تلک جاوے گی! جاوے گی تو جاوے گی! کہیں سے کوئی بولتا ہے آوے گی بھئی آوے گی!! جاوے گی بھئی جاوے گی! تو اوّل تو ہم کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم وہی کہیں سوات کالام میں بیٹھے ہیں کہ حالات و واقعات اعظم سواتی صاحب سے ہو چکے ہیں! ویڈیو بن رہی ہے، ہر طرف کیمرے لگے ہیں! گھور رہے ہیں! لیکن آپ کہاں ہیں؟ فرمایا “دور” ہیں، کیمرے سے چھوٹے ہی نظر آتے ہیں، آدمی اپنی صحبت سے دور ہو جائے تو چھوٹا ہی نظر آتا ہے صاحب! جماعت با جماعت ضروری ہے، کندھے سے کندھا ملا کر چلو، باجماعت ہو گا، جو بھی ہو گا ساتھ ساتھ ہو گا، آگے زیادہ جگہ نہیں ہے، آگے جگہ ہے ہی نہیں! پیچھے دھکیلو، سب مجمع ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلتا گیا صاحب! مجھے کچلا گیا صاحب! دادا میاں کے ساتھ نمازِ فجر کو جاتے تھے. . .

اپنی ذات میں نہ سما سکنے والی کھوجی روح! جو اپنے دادا کی انگلی تھامے سُّنیوں کی مسجد میں جاتی، کہ صفِ اوّل مل جائے. . صاحب! نمازِ فجر کی جماعت کی صفِ اوّل ، صرف بڑے بوڑھوں کے لیے ہی تھی! ہم نے کہا بھی کہ بڑ ے ہی ہیں، ہو چکے ہیں بڑے، مگر دھکیلا گیا صاحب! پیچھے، بہت پیچھے.. ہم دور چلے گئے صاحب، اتنا کہ اب کیمرے سے دِکھتے ہیں! اور چھوٹے ہو چکے ہیں! “ہے” کی ہڈی اٹک گئی ہے صاحب! ذرا پانی پلا دیجیے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے