Skip to content

67: جُوئے شِیر


؎ صبح کا کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شِیر کا!
جوئے شِیر کو واؔرث شاہ سرکار نے ہیؔر کے ڈھنگ سے وضع کیا۔ اقباؔل اِسے “بالِ جبریل” میں کہہ گئے اور رہے ہم ، تو ہم نے غالبؔ کی جُوئے شِیر کو درگاہِ ہر ہر فقیر سمجھا۔ کیا کرتے؟ اور کیسا سمجھتے، کتنا سمجھتے؟
اِسی بے سمجھی میں، آئنوں میں خود کو کھڑا پاتے ہیں ، ہر ہر عکس میں صورتِ حُسنِ جاناں تلاشتے ہیں ! آہ صاحب، ممتاؔز مفتی کی انوکھی کتاب “تلاش” کے صفحات میں اترا ایک لڑکپن ، لڑکپن کم اور بانک پن زیادہ رہا! “تلاش” کے صفحات سے قلاشؔ کی گلیوں تک، جو تلاشتا تھا، وہی بانک پن، اب دیکھ رہا! ہر ہر عکس دیکھتا رہا! اور یہ دیکھنا بیدمؔ وارثی سا دیکھنا تھا ، فرمائے
؎ آئنہ رُوبرو تھا جدھر دیکھتے رہے
کیا دیکھتے ہم اُن کو مگر دیکھتے رہے

Kasur, Pakistan .2021


“جُوئے شِیر” کیا لاتے ، ہم درگاہِ فقیر پہ بیٹھے رہے ،تماشا دیکھتے رہے اور ماتھا ٹیکتے رہے ۔ اِسی بیٹھا ٹیکی میں ، کبھی” سَرہانا” ملا، تو کہیں “تکیہ” ! اُسی بانک پن میں اباّ میاں نے ایک روز ثاقب لکھنویؔ کا مِصرع سنایا؛
؎ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
ہمیں وہ “تکیہ” ملا ہی نہیں تھا، ہم سَرہانے میؔر کے خاموش رہے، باہوش رہے ۔ اُسی خاموشی میں آئنوں کے روبرو ہیں کہ آپ نے فرمایا، “دیکھ دیکھ میں بھی لیکھ لیکھ سا فرق نمائیاں ہے”۔
آہ!
ہم نے پوچھا، دیکھ دیکھ کہ لکھنے والا اور لیکھ لیکھ میں دِکھنے والا، کیا ایک ہی تھا؟ کبیر داسؔ نے جھٹ سے کہا،
؎صاحب میرا ایک ہے دُوجا کہا نہ جائے
ایک ہی تھا صاحب!
ایک ہی ہیں صاحب!
آپ فرمائے ، ایک کے لیکھ کو دیکھ کر لکھنے والا ، اگر لکھتا تو کیا لکھتا؟
ہم نے عرض کی ، کہ ایک کے لیکھ کو دیکھ کر لکھنے والا ، لکھتا تو یقیناً “الف” لکھتا! وہی الف جو قاف قائم ہے، قاف قائم، الف کو لکھا تو لام کے لیکھ سے لکھا کیے۔ ا یسے میں آنٹی بشارتؔ نے ڈپٹ پلائی کہا “ دیکھ کر نہیں لکھتے؟ دیکھ کر لکھو!”
آہ صاحب!
دیکھ کر کیا لکھتا؟ تو کیا لکھتا بدن کی ہر ہر کروٹ کو ، جو توڑ جوڑ کر بنتے بگڑتے ہیں، وہ سارے لفظ، جن سے وجودِ آدمی برقرار ہے!لکھتا تو کیا لکھتا؟ کہتا تو کیوں کر! آواز آئی “دیکھ کر لکھو! “ الف ، لام، سے نہیں ہوتا!
لام سے ہی تھا، لیکھا کا الف، ایک سیدھی لکیر میں مستقیم ،
جو جانتا تھا کہ بنانے والے نے بگاڑ کر ہی بنایا ہے ، ہر ہر نطفے کو ! ہر ہر نقطے کو! نطفے، نقطے کتب و کتبے! بے حسابے بے کتابے ! ایسے میں خسروؔ گنگنائے ،
؎ چشمِ مستے عجبے زلفِ درازے عجبے!
بے ، بے ، بے ، بے ، ہم کہے اور جان گئے ، الف بے کا کھیل ہے ! اور مرزاؔ سے ادا سے کہے ،
الف کا کرنا، ب کا لانا ہے مُوئے فقیر کا!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الف ، بے ، لام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے