Skip to content

64: ہونے کی جوت!

ایک جوت تھی اُسے،
ہونے کی جوت!
“شاہ سوار” جُتا ہوا تھا،
ابا میاں نے گھٹی کے ساتھ ہی کچھ اشعار بھی پلا دیے تھے۔ فرمایا؛
؎ گرتے ہیں شاہ سوار ہی میدانِ جنگ میں !
اب کوئی محقق کہہ سکتا ہے کہ جی اصل شعر کے ساتھ استفہامیہ نشان نہیں ہے ، تصحیح فرما لیں ! جی تحریر میں بے ضابطگی بڑھ جاتی ہے فصاحت نہیں رہتی! ہم پھر لگائے استفہامیہ!!”!”۔ کہ ہمیں فہم و استفہام کے لیے خط اور عدد کے سوا بھی علامات نظر آئیں!
جی صاحب بصر و نظر کے معاملے ہیں ! ہمیں جھٹ سے قبلہ عزیز میاں قوّال یاد آئے، گا رہے ہیں اور گرہ لگاتے ہیں ؛
؎نظر نے نظر کو نظر بھر کے دیکھا
نظر کی نظر کو نظر لگ گئی !
اب یہ منتر نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ بس پھر کیا تھا جوں جوں نظر بھرتی گئی ، دیوانگی اُمڈ اُمڈ آنے لگی ! نظر کا بھرنا، آنکھوں کا بھرنا بھی تو تھا صاحب ! “نظر” کو “نذر” لکھے تو “ نذر” کو “نظر” کہے۔ کہہ گئے !! ، کسی نے دیکھا ہی نہیں ، پوچھا ہی نہیں !
کیا دیکھتے ہیں کہ ابا میاں ہمیں لیے ہر ایک صاحبِ بصیرت کے پاس گئے ، فرماتے کہ بچے کو “نظر” لگ گئی ہے ! آہ صاحب! کیوں نہ لگتی آپ کی نظر ! جو رہا ہی نظر میں ، جس کا ہونا ، آنکھ ہونا ہو! اُس آنکھ کی مدّ آپ کے خم سے تھی صاحب! دم خم میں خم آپ کے دم سے ہی چلا آیا تھا! ایامِ طفلی میں نظر لگ گئی تھی آپ کی، اور دم کرواتے کرواتے دم بہ دم ہو گئے ہیں ! ایسے میں استاد نصرت فتح علی خان صاحب کی آواز کانوں پڑتی ہے ؛
؎ سانسوں کی مالا پہ سِمروں میں
پی کا نام!
نام! ، استفہام کا ہی تھا! ہمارے پاس سانسوں کی مالا تو تھی، لیکن دموں کی مالا بھی تھی!ایک دم بہ دم کی اور دوسری دم ہمہ دم کی تھی! بون میں رات کی دوسری کروٹ ہے اور اُس اندھیری خاموش گلی سے گزرتے ہوئے ہستی کی بے چارگیاں دیکھ رہا تھا، ہر سو، صرف اژدھام تھا، بے چارگیوں کے اژدھام پر ہم استفہام ہی کر سکتے تھے، اِسی لیے کر لیتے ہیں!
چنانچہ وہ اشعار وہ زبان کی ساحری، کوئی جادوگری تھی صاحب! کہ مکر و فقر بھی زبان ہی سے وابستہ ہے! ایک مدت ابامیاں صرف پہلے ،مصرعے کا ورد کرتے رہے !
؎ گرتے ہیں شاہ سوار ہی میدانِ جنگ میں
چند برس بعد کہیں بیٹھے تھے تو دوسرا مصرع بھی کسی نے سُنا دیا، ابا میاں بہت خوش ہوئے اور ہمیں حکم دیا کہ فوراً یاد کر لو! صاحب تب تک محمود و ایازؔ کے معرکوں میں خود کو یہ سینہ سپر پاتے رہے تھے، تب تک ہم کتنی ہی بار شاہ سواری کرتے رہے تھے ، شاہ سواری سے گڑھ سواری بھی کر چکے تھے۔
؎وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
اب محقیقن میں پھر ہلچل سی ہونے لگی کہ عظیم دہلوی ؔ کے شعر کو آپ نے غلط پڑھا ہے ، درستی فرمائیں۔ پہلا مصرع کچھ اِس طرح ہے
؎شہزور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے گا

چل تو رہے ہیں صاحب! گاہ گھٹنوں کے بل، گاہ ٹخنوں کے بل!
چلتے رہیں گے ، لکھتے رہیں گے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے