Skip to content

61: قاری سعید مبارک!


زمانوں کی ہلچل میں کوئی ، کوئی شوخ ہے تو کوئی چنچل! لیکن ایسے میں کِسی بُلبل کا بِلبِلانا ! کیا شوخ تھا یا چنچل؟ ہم پوچھ بیٹھے تو فرمائے ، جس کسی کے آنے اور چلے جانے کا ذکر ہم اخبار میں پڑھے ہیں ، وہ لوگ اگر ایک حرف، اِک کردار نہیں ہیں تو اور کیا ہیں؟ ہم ڈوب گئے ، گہرا اتر کر دیکھنے لگے ہر اُس نام کو جنہیں کوئی جانتا ہی نہیں تھا، وہ الفاظ جو حالؔی، سرسیؔد اور شبلؔی جیسے کتنوں نے کہے ہوں گے! وہ لفظ آج کہاں ہیں؟ اگر لفظ نہ ہوئے تو قاری کیا پڑھے گا؟ کیا سُنے گا؟ کوئی سُنے گا؟ ہم پوچھتے ہوئے ادبی منڈی داخل ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ رنجیدہ و سنجیدہ گدھ بیٹھے ہیں ، کہیں گدھے گُدگدا رہے ہیں ، کہیں خچر ہنہنا رہے ہیں البتہ اِس ہنہناہٹ اور بھنبھناہٹ کے درمیاں لفظ کھو چکے تھے !
اخبار میں لفظوں کی گمشدگی کی خبر چھپوا دو!
خبر چھپی نہیں ، چھُپ گئی تھی، لفظوں میں نہیں تھی!
لفظوں کا کھو جانا، حروف کا امتیاز نہ کر پانا، شور و غوغا سنتے رہنا، یہ سبھی علاماتِ قیامات ہم دیکھنے لگے ہیں ۔
ایامِ طفلی میں ننھی ننھی دو ٹانگوں سے چلنے ہی لگے تھے کہ پُوپھی مرحومہ کے ساتھ گھر لوٹ رہے ہیں۔ خدا جانے اُنہوں نے کیا سوچا ہوگا، ہم سے مخاطب ہوئیں اور کہنے لگیں، “کہتے ہیں کہ قبر انسان کو دن میں ستّر مرتبہ یاد کرتی ہے ، کہ ائے بندے تُو آخر کب تک دوڑتا رہے گا، ایک دن میں تجھے ..”
بخدا، یہی کوئی پانچ برس کے ہوں گے کہ تہیہ کر بیٹھے، کہ ہم بھی اپنی قبر کو ہمیشہ اُس سے زیادہ یاد کریں گے، اور کیے بھی صاحب! ہر ہر شہر کے تراشیدہ گورستانوں سے گمنام مرگھٹ تک، پنکھٹ سے پانی بھی پیے ، اور پیاسوں کو دودھ کی سبیلیں بھی پلائی، اور جان چکا کہ خدمت میں تشنہ کو سیرابی ملتی ہے ! چنانچہ شبِ ہجراں سے آغوشِ مستّاں تک، جو بھی ملا، سینے سے لگا لیا!
پُوپھی مرحومہ کی کہی وہ باتیں کوئی جادو سا کر گئی تھیں.. اُس روز سے ہم بھی پکارنے لگے ہیں ، “مزارِ ما کُجا است”
سینے ہی سینے ،
نگینے ہی نگینے ..
کمینے ہی کمینے !
واہ صاحب! اب کہ خود کو محلہ عید گاہؔ میں پاتا ہوں، نمازِ عید ادا کرتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں! سینے ہی سینے ، ٹانگیں ہی ٹانگیں ، رگڑ رہے ہیں، ایک دوسرے کو .. کوئی جلدی ہے ، ہر کسی کو کہیں جانے کی.. ہم کچھ چاہے ہی نہیں ، اُس رگڑ سے جسم نہ پگلے ، نہ ہی کوئی چنگاریاں اٹھتیں! سینے ہی سینے ، کمینے ہی کمینے .. ہم گزارش کرتے ہیں کہ تین مرتبہ مصافحہ کو کم از کم تین تین مرتبہ کر دیجیے .. پانچ پانچ منٹ آدمی انجانوں کو چھاتی سے لگائے ، کچھ رو تو لے .. اور جو کہے عید مبارک!
اُسے ہم کہتے ہیں ، قاری سعید مبارک!
(بون کا بنجارہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے