جی تو صاحب ! آپ کہیں گے کہ کیسا بڑبولا ہے، رکنے کا نام نہیں لیتا، ہم کہتے ہیں کہ صاحب! بڑبولا نہیں، بھرا بھڑولا ہے! اور رُکے کیسے، کہ بہہ رہا ہے، اُسی دھارے میں جس میں کونین بہہ رہی ہے! سورج، چاند ، ستارے! نہ ہمرے نہ تمہارے! کیوں کر ٹھہرتے؟ کیوں کر رُکتے؟ اب آپ دیکھیے ناں کہ سقراط دادا کے دور سے ہی افلاک کو جاننے کا کام جاری ہے ۔ تو انفس؟ انفس کا کیا؟ کیا انفس و آفاق میں کوئی تفاوت ہے؟ اگر ہے تو وہ جاننے اور نہ جاننے کا ہی ہے!
صاحب! آپ برا نہ مانیے گا کہ ہم آپ کو ” صاحب“ کہہ کر پکارتے ہیں! کیا ہے کہ کچھ بھی اور کہا نہیں جاتا! کہ آپ کو ہمیں اور ہمیں آپ کی صحبت ملی! ملی یا ہم نے چھین لی؟ ہم نے چھینی یا آپ نے ہی عطا کی؟ کہ صاحب! آپ نے ہی فرمایا تھا کہ ، ہجر سب سے بڑا تعلق ہے! ہمیں ہجر ملا صاحب! آپ سے، تو آپ ہی کے روبرو کرتے ہیں، کہ ہمارا خط غلط پتے پر موصول ہوا تھا۔ جی صاحب وہی خط جو آپ نے اپنے آپ کو لکھا تھا، میں آپ کا ہی خط ہوں، آپ کا ہی ہوں صاحب! سر پر آپ کے ہی نام کا گھڑا رکھا ہے! اُتار دیجیے! وہی بارِ گراں ، جسے سب نے اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا. . .
تو ہمیں کیوں اٹھواتے ہیں صاحب! اب کہ خود کو شہرِ بخارہ کے کسی کاروان سرائے میں پاتا ہوں. . کیا ہے کہ خچر ہوں! وہی خچر صاحب، جس پر آپ کا صدمہ لدا ہے! لادا گیا ہے! آپ نے ہم سے دانشوروں کو ہی گدھا کہا ہے! تورات میں بھی انجیل میں بھی جو آپ کا کہا نہیں سمجھتے ! وہی اُلو ! جو کتابیں لدے گدھے ہیں کہ سوچ سمجھ نہیں سکتے! اوّل تو ہم کہتے ہیں کہ آپ نے گدھا کہا! ضرور کہا! لیکن بہت پیار سے کہا! پیار ہے انددرر، پکار ہے اندررر! پ پیار اور پ ہی سے پکار ! آر اور پار میں فرق صرف پ پیار کا ہے ! ہو گیا، تو ہو گیا!
خیر دوسرا ، یہ کہ آپ نے گدھوں کی کوئی کہانی پڑھی ہے کبھی؟ وہ گدھے جن پر نمک لدا ہوتا ہے، بھاری بھرکم نمک کے تودے، ڈھیلے اور چونا پتھر! تو اُس کا مالک اُسے روز لاد دے! یہاں سے وہاں، بستی بستی قریہ قریہ! اب کیا ہے کہ ایک راستے سے نالہ پار کرتے ہوئے ایک بار گدھا پھسل گیا ۔ جب اُس کے مالک نے رواں نالے کے تیز پانی سے گدھے کو اٹھایا تو نمک گھل گیا صاحب! ایسے گھلنے سے گدھے کو احساس ہوا کہ اُس پر سے بوجھ ہلکا ہوا ہے۔ اب کیا تھا کہ آئندہ جب بھی وہیں سے گزر ہوتا تو گدھا جان بوجھ کر پھسل جاتا! جان بوجھ کر چُوک جاتا! ہم چُوک جاتے تھے ، پھسل جاتے تھے۔ ۔ مالک اُسے سیدھا سنبھالا دے بھی تو نمک کے گھل جانے پر، پیار کے مل جانے تک! تو مالک کیا کرے؟ صاحب کیا کرے؟ گدھے کو گدھا ہی کہے گا ناں! وہی گدھے ہیں!
لیکن آپ کے ہی ہیں! دوسرا ، گدھا کہے ہیں، لیکن، پیار سے کہے ہیں! اُسی پیار سے جو پیار عالِم کو اپنے علم سے ہوتا ہے، ہم کو آپ سے ہو گیا تھا صاحب! ویسے کیا آپ جانتے ہیں کہ “گ”، “ق” کی ہی شکل ہے! وسطی ایشیائی ممالک میں ، کہ جہاں ترک زبانوں، کُرد ی اور ایرانی کے ساتھ ساتھ دیگر اُوغر زبانوں میں بھی یہی لفظ پھیلتا سکڑتا نظر آتا ہے! اِسی لیے آپ کو قاری حضرات مساجد میں دورانِ تلاوت “ق” کو “گ” کے سے انداز میں پڑھتے بولتے سنائی دیتے ہیں۔ یا جب میں دورِ عثمانی کے خط میں لکھی ترک زبان سیکھ رہا تھا تو ایک حرف پڑھتے ہوئے میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ “گ” لکھا تھا صاحب! کہنے لگے کہ “ق” ہے ، ہم نے بھی کہا کہ “ٹھیک” ہے! جدید ترکی زبان میں "ق” کا متبادل ،انگریزی حروفِ تحجی کا “کیو” ہے ہی نہیں، کیوں نہیں ہے؟ ہم نہیں جانتے! یہ فیصلے کنِ ہوں نے کیے؟ ہم نہیں جانتے! لیکن کیے جا چکے تھے! ہم انہی کے پابند ہیں! لکھنے لکھانے میں ، پڑھنے پڑھانے میں زبان بھی ایک بے کار سی ترتیب ہے! خیر! اب آپ کہیں گے کہ “کار “ تو ہے! کام ضروری ہے، جاب ضروری ہے، تو ہم کہیں گے “جی ہے”! جی!! “ہے”! آپ پوچھیے گا، کیا ہے؟
ہم بلکتے ہیں “ہے کی ہڈی!”
اٹک گی ہے صاحب! ب بنجارے کو! پیار کے مارے کو!