نور کا اُجلا ، چاند کا ململ چہرہ ، کس کا تھا؟ آپ کا تھا! یعنی آفتاب کا تھا! دن اور رات کے جھمیلوں میں پڑا انسانِ جدید کیا دیکھ پاتا؟
کیا دیکھ پاتا ، اُن نظاروں کو جنہوں نے، آدمی کو محّو حیرت کر رکھا ہو!
دیکھ پاتا اُن قمریوں کو ، جو ڈالیوں سے، جُھول رہی تھیں .. کہہ رہی تھیں کہ رزّاق یہی ہے ! رزّاق یہی ہے !
اتنا کہنا تھا کہ اطراف سے ایک ہنگامہ سا بپا ہونے لگا۔ ایک گروہ کہنے لگا کہ یہاں قمریوں کے نزدیک پروردگارِ عالم کی بات ہو رہی ہے، کہ راقم فقیر ہے تو یقیناً خدا پرست بھی ہوگا!
اتنے میں غاؔلب ستانے لگے، کہنی ڈھونکے کہنے لگے ، بنجاؔرے سُناو ناں انہیں ..
؎ ہاں وہ نہیں خُدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں
..ایک وقفہ ہوا، اور ہم بھی آپ سے بگڑنے لگے ؛
وہی ناں ، کیوں جاوں میں آپ کی گلی میں؟ کوئی جائے بھی کیوں ہی ، کسی کی گلی میں !
صاحب ! غالؔب نے تو آپ سے ایسی لاتعلقی کا اظہار کیا جیسے جانتے ہی نہیں ! مانتے بھی نہیں !
ابھی بھی دیکھیے ہمی کو کہہ رہے ہیں کہ خط و کتابت جاری رکھو! آپ کو اُلجھائے رکھوں، یا خود کو سلجھائے رکھوں!
کیا کروں!!!
غالؔب حقہ کی نلی منہ میں دابے سوچ رہے تھے !
خیر، دوسرے گروہ کا ماننا یہ ہے کہ دیکھیں ، فلسفی ہیں ، قویّ امکان یہی ہے کہ کہے ہوں ، رزّاق ، قُمریوں کے نزدیک تو وہ پیڑ ہی ہے جس سے وہ جھول رہی ہیں ! لہذا ثابت ہوا کہ وہ درخت کو سبب اور علت مانتے ہیں لہذا قُمریاں جُھولنا بند کر دیں !
آہ صاحب ! “قُمریوں کا جھولنا منع ہے”!
اُجالا نُور کا تھا!
لیکن تھا ظلمت میں !
غالب ؔ پھر ڈھونکے ، ہم سمجھ گئے ؛ پڑھنے لگے ،
؎ ظلمت کدے میں میری شبِ غم کا جوش ہے
غالبؔ کے اُسی ظلمت کدے میں بیٹھے ہیں ، لیکن جوش ہرگز نہیں ہے، پوش پا پوش تو دور ہوش بھی نہیں ہے !