
کیا دیکھتے ، ہم اُن کو مگر دیکھتے رہے !
ٹرک!!!! ٹرک !!! ٹرک ٹرالے ، نیلے ، پیلے اور کالے کالے، ٹرالے ، ٹرالیاں ! شور شرابا ، ہنگامہ!!
ٹرک ، ٹرالے تو تھے ہی “ٹرالیاں” بھی تھی.. بھیڑ بھاڑ سے دُھوم دھام تک ، ٹرک ٹرالیوں میں رکشہ اور کوئی گدھا گاڑی بھی پھنسی ہے !
ہم دیکھے اور تعجب سے کہے ، سبحان تیری قدرت! تیری قدرت کے نظارے دیکھ رہے ہیں !
“ٹریفک” دیکھ رہے ہیں ۔۔
ٹرالے ، ٹرالیوں میں گاڑیاں بھی ہیں ، گاڑیاں ہی گاڑیاں، داڑھیاں ہی داڑھیاں ! داڑھی میں بالوں کی جگہ تنکے تھے صاحب!
وہی تنکے جو ہم سے ڈوبنے والوں کا سہارا بنتے !
کہاں بنتے صاحب! آہ صاحب، “کہاں بنتے”!!! یہی سوچ رہے تھے ۔ دیکھ رہے تھے کہ دیکھتے ہوئے چلنا اور چلتے ہوئے سوچنے میں کیا کوئی فرق ہے؟ فرق ہے تو کہاں ہے، ضرور فراق میں ہی ہوگا۔ آپ پوچھے، اب فرق پڑا ہے؟ تپتا ہوا بِروا کا سوکھ بدن، جیسے بجلیاں کوندتی ہوں ننھی سی رگوں میں ،
وہ کانس کی کیتل، وہ ماٹی کا بھانڈا.. اور چکور پڑی اُس چٹائی پر ، جہاں وہ لیٹا تھا، سسک رہا تھا،
آپ آئے ، پوچھا، اب فرق ہے؟
“فرق” نہیں تھا مریضِ محبت کو
“فراق” تھا صاحب! قاف تھا صاحب!
اُسی قاف کی قاب سے کچھ نہ لیے تھے ! بس دیکھ رہے تھے ! کہ ٹریفک کو “ق” سے لکھ دیں؟ نیز ، “ٹریفک “ میں سے پہلے تین حروف نکال کر الگ سے لکھیں اور اُس میں “ف” کو فتح سے پڑھیں گے تو جو “فک” نکلے گا اُس کا کاف ، “ق” کیوں ہے؟
آپ نے لَوچ لی، اور فرمائے، “کیوں” ہے، میں بھی تو “کاف” ہے، کاف کافی کیوں نہیں ہو رہا؟
کاف کافی تو تھی لیکن بنانی پڑے گی!
کافی حافظ!
کافی پیجیے سب کو دیجیے !