Skip to content

56: قیامت کی گھڑی

گھڑی قیامت کی تھی صاحب! سامنے کھڑی تھی! کیا دیکھتا ہوں کہ مسکرا رہی ہے ! اور کتنے پاس آ رہی ہے! قیامت کی گھڑیوں کا ذکر سنا کرتے تھے، آج دیکھتے ہیں! بہ خدا جس نے بھی وہ پانچ روپے کا کتابچہ تالیف کیا تھا، کیا خوب کیا! جی صاحب ، اب کہ ملکِ خداداد کے علاقہ پنجاب کے ایک دور اُفتاد گاوں میں ہوں ، بچپن ہے ، “قیامت کی نشانیاں” اور “موت کا منظر” نامی دو کتابچوں نے ایسا باولا کیا کہ بَونؔ آنا پڑا! جی صاحب، باغِ بہشت بھی بون کی ب سے ہی ہے ! وہ تو ہے لیکن قیامت کی گھڑیاں ! قیامت کے گھڑیال ! اُن کی بابت بھی تو کچھ کہیے!
فرمائے ، نگاہ طلسمِ وجود کے پار دیکھے تو پارہ ہو جائے! ہم پوچھے پار دیکھنا کیسے ممکن ہے؟ فرمائے ، پار دیکھنے کے لیے موجودات کو پیار سے دیکھنا شروع کر دو! پیار سے دیکھنا، اُس گھڑی کی طرح دیکھنا ہے جو قیامتوں میں قائم ہے! ہست و نیست کے مابین جو “و” ہے ، اُسی wao سے دیکھنا اور سراہنا!
کہنا کہ میرے سجدے آوارہ سہی لیکن میری پیشانی پر مہر آپ کی محبت کی ہی ثبت ہے! ثبات ِ محبت کا اثبات کیسے ہو؟ ہم پوچھے تو عرض کیے ! محبت کا اثبات ، ثبات خود ہے! ہونا ہی نہ ہونے کا ثبات ہے ! اِسی نفی اثبات کے کھیل میں رچا ، بنجارہ اب کہ خود کو آلٹنؔ برگ کے راہبوں میں پاتا ہے ، ساتھ میں ایک لبنانی جوان عمر موسیقار ہے، اپنے لیب ٹاپ سے ، سرکار سلطان باہوؔ کا کلام ، طاہر قوال کی آواز میں چلا دیتا ہے ..
کلیسا کی چار دیواری میں اپنی ماں بولی سُن کر، اُس میں سرکار سلطان باہو ؔ کی آواز یوں کان پڑی جیسے .. سمجھاتے ہوں کہ یہی نفی اثبات کا پانی ہے !
پی جاو!
ہو جاو!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے