جی صاحب! اب کہ شہرِ انؔقرہ کی گلیوں میں ہوں اور چل رہا ہوں ، آپ کے بارے میں سوچ رہا ہوں ! اور ہر اُس حکیم کے بارے میں کہ جس کسی سے آپ کا نام سُنا تھا! نام بھی کسی کو معلوم نہیں تھا! کوئی کیا کہہ رہا ہے کوئی کیا سمجھ رہا ہے ! جدلیاتی تخصیص و تقسیم تو ہم نے غالبؔ سے سیکھی تھی ، آپ فرمائے
؎ نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
ہم جان گئے کہ “نکتے” ہیں اور” ہونے” کو بے چین ہیں ! مگر ہونے کے مرض میں مبتلا کوئی “کبھی نہ ہو سکنے” والا بھی اپنے” حکیم” کی تلاش میں سرگرداں ہے ! جا بہ جا، کُو بہ کوُ، آپ ہی کا چرچا تھا ! آپ بہل گئے ، خوش ہو کر پُوچھا ، کُوبہ کُو تھا ، کیا خوشبو کی طرح ، گفتگو میں بھی تھا؟
ہمیں محترمہ پروین شاکرؔ یاد آ گئیں؛
؎ کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
تایا ابا مرحوم اُن کے اشعار دُھرایا کرتے تھے .. بالخصوص اِسی غزل کا ایک اور شعر ،
؎ و ہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
اور اکثر مرتبہ تو دیکھا کہ تایا ابا، اِسی شعر کی بارہا تکرار کرواتے ، دُہراتے ، دُہرواتے! ایک مرتبہ اُن کی حالت بہت ناساز تھی۔ ہسپتال اُن کے پاس پہنچا تو پیشانی پر ہاتھ رکھ کر کچھ بڑبڑانے لگا۔ تایا ابا کی حالتِ نزع میں آنکھیں دیکھ کر بے تاب سا ہوا، کیا سُنتا ہوں کہہ رہے تھے ،
؎اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تا ثیر مسیحائی کی
ہائے صاحب ، دم ہو گیا تھا۔ کس اہلِ زبان کو شعر کی ہیت کی بجائے ہُوئیت پر گرفت مل جائے، تو وہ طبیبِ شہر کا کیا کرے ؟
جی صاحب! آپ پوچھے طبیب کاہے ڈھونڈتے ہو، بنجارے! کیوں نگر نگر پھرے ہو آوارے!
جب “بے چاروں” کے “بٹوارے” ہو رہے ہیں ،
جو کوئی بھی ہم ہیں تمہارے ہو رہے ہیں ،
تو بنجارے کے آوارے ہونے پر وعظ کیوں ؟
ایسے میں علامہّ فرمائے ،
؎واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
جی سبھی کچھ چھوڑ کر دیوانگی اپنائی ہے ، اب دیوانگی بھی ترک کر دی، تو کہاں جائیں گے؟ یہی سوچ کر چل رہے ہیں ! آپ کا پتہ پوچھ رہے ہیں !
جی بتلا کر آئے ہیں ، بَن جا رہے ہیں ، بنے جا رہے ہیں ، بَوؔن جا رہے ہیں ، بنجارے ہیں !
پھر ملیں گے چلتے چلتے ..