آپ کہے شباب تھا! کیا شباب تھا! شباب بھی شبا شب تھا!
ہم سمجھے نہیں کہ شباشب تھا یا لبالب!!
آپ سمجھ گئے کہ لبالب ہو یا شباشب! شباب تو تھا! اور اگر شباب تھا تو ساتھ میں شراب و کباب بھی ہوگا! آہ صاحب، “ہوگا ہی ہوگا” ہے! ہر بات مستقبل کی آئنہ دار ہے ۔ اور اگر ہے تو ، ہے اور ہوگا کے باہین جو فصیلِ لا ینحل ہے ، اُس کا کیا ہے؟ آپ سمجھ گئے کہ لا ینحل تو لام سے ہی ہے اور شباب و شراب کو شربتی ب سے لکھ دیجیے ! رہے ہم سے میؔر کے فقیر تو نہ شباب ہے نہ شراب!
میر ؔ کی گور سے اِک دھواں سا البتہ اُٹھتا ہے ، فرمائے
؎ عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
تو عرض ہے کہ میؔر کے فقیر ہوں یا لکیر کے فقیر! ، فقیر تو ہیں ! اور فقیری کا اوّل خاصہ یہی ہے کہ مہد ہو یا لحد، زندگی کا پنگوڑا ہو یا موت کا بچھونا!
ایک سا کاٹے صاحب! بچھو ہوں یا بچھونا ہو! نہ ہو صاحب! نہ ہو ! نہ ہی کوئی ہے ! جو ہو !
اب کہ پنجاب یونورسٹی نیو کیمپس میں چچا جان کی معیت میں چہل قدمی ہو رہی ہے ، ہم جو ہو ، وہ ہے ، اور جو ہے ، وہ ہوگا کی تکرار کیے ہیں ! اور قبلہ سیف الرحمٰن سیفی صاحب کے مرید ِ باصفا ہیں ! ہائے صاحب! وہیں سامنے فیضؔ سگار سُلگھائے بیٹھے ہیں ، ہمیں دبوچ لیے ، کہنے لگے
؎ ہم اہمِ صفا ، مردودِ حرم مسند پہ بیٹھائے جائیں گے
ہم لپکے کہ دو چار قدم چلنا ابھی باقی ہے ، فیض صاحب! ذرا کش لیجیے ! ابھی تو لام لیٹے ہیں ، ابھی تو الف کھڑا ہونے کا وقت نہیں ہے ! ہمیں شباب میں کوئی دِقت نہیں ہے ! آیا ہی نہیں ! آنے والا کوئی تھا ہی نہیں ! جونؔ جھوُمے کہے ،
؎ جانی، جو تھا وہ تھا ہی تھا!
سارے گاما پادا نی سا!
شباب کا سا شباب دیکھتے ہیں ! حساب دیکھتے ہیں ، کتاب دیکھتے ہیں ! کہ فرمایا مومن کی فراست سے ڈرو ! وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے ! ہم اُسی مومِن یُونان سقراؔط کی طرح دیکھنے لگے ، اور پوچھنے لگے کہ یہ رستہ کدھر کو جاتا ہے ! کوئی رستہ تھا ہی نہیں ! کوئی جواب تھا ہی نہیں ! آپ جان گئے کہ جواب نہیں ہے تو شباب بھی نہیں ہوگا۔ یہاں کچھ بھی نہیں ہو گا!
گا سلامت!
(بَون کا بنجارہ)