ابا میاں کے رٹوائے اشعار میں ، چند ایک علامہؔ کے بھی تھے۔ یوں تو ابا میاں ، مکتب نہ گئے تھے ، مگر سُن سُنا کر چند ایک اشعار اُن کے حافظے کا حصہ بن گئے اور اُنہی میں سے ایک علامہ کا، ہمیں فرمائے کہ
؎ الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غوّاص کو مطلب ہے صدَف سے کہ گُہر سے!
ہم کیا سمجھتے صاحب، الفاظ کے پیچ ، پیچ در پیچ، درپیش ہو گئے تھے، ہوتے ہی رہے تھے۔ صدف و گہُر میں سے کسی ایک کا انتخاب کوئی دانا کیسے کر سکتا تھا! ہر مہک، ہر چہک، بھلی تھی! ہر صبا سے بادِ نسیم تک، عطریات کا آنگن تھا۔ معصوم نگاہوں سے ابا میاں کو دیکھتا رہا۔ اور ناک کے نخیف پردوں سے ہر ہر عطر کو لوبان سے اور لَوبان کو مِسک و کافور سے جدا کرتا رہا! مگر ایسے میں دانائی کا بوجھ کیوں کر اُٹھاتا !
کاش ابا میاں کو کہہ سکتا کہ ہمیں مطلب نہ تو صدف سے ہے، (ٹویشن میں ساتھ پڑھتی تھی) نہ ہی گُہر و گوہر شاہیؔ سے !
ہم کو مطلب “ادب” سے تھا صاحب ! ایسے میں غالب نے تائید کی، کہا
؎ خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
آپ کا نام ہی ، ادب ہے، ہم مودب ہو کر بیٹھ گئے ہیں ! نام سے عشق، زبان سے عشق تھا صاحب! دانائی علاؔمہ کو زیبا تھی، ہمیں غالؔب سی فراست مل جائے ! ہمیں صدف نہ سہی، صدا نہ سہی ! وہی حرفِ تمنا لوٹا دیجیے ! ایک اور دغا دیجیے ؛
اتنے میں چچا جان نے سینے سے لگایا اور کہا بیٹا یہ شعر یاد کر لو،
؎ ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نکتے نے محرم سے مجرم بنا دیا
جی یاد کر چکے ہیں صاحب! مگر اب نکتے کا کیا کریں؟ کہاں لگائیں؟
(بَون کا بنجارہ)
