Skip to content

نشست 45! لام شُد

فرمایا ، “لیٹنا “ کائنات کا سب سے مشکل کام ہے! جی ، لیٹنا تو مشکل تھا ہی ، مگر لام سے لیٹنا اور بھی مشکل کام تھا صاحب! ہم نے دیکھا کوئی دائیں لیٹا تھا، تو کوئی بائیں ! کوئی منہ کے بل گرا ہے تو کوئی پُشت کے بل کھڑا ہے !! کوئی لیٹنے والا، “ لام” سے کیسے لیٹتا؟ ہم اِسی کا رِیاض کرنے لگے ! کہنے لگے کاش کوئی لیٹنا سِکھا دیتا! آپ سمجھ گئے کہ آج نشست لیٹ کر ہو گی! کلام لیٹ ہو گا، لام لیٹ ، چاک لیٹ! تھوڑی دیجیے ! جی، ابھی آپ دیکھ لیجیے کہ “سواری” لیٹ ہو تو لوگ کہتے ہیں، “گاڑی” لیٹ ہو گئی تھی۔ آپ سمجھ گئے کہ لام سے لوگ ہیں تو گاڑی بھی “لام” سے ہی ہو گی۔ آپ جُھومے اور دہرائے ، “ لام سے لوگ ، لام سے گاڑی” ۔ لگتا ہے کہ لام اور گاف کی اُلجھنیں ہیں ! اور اُلجھن اِسی بات کی ہے کہ کوئی “الف” اُلجھنیں کہہ رہا ہے، تو کوئی “لام” اُلجھنیں بانٹ رہا ہے ! ہم اِس دھوکے میں نہ آئے صاحب! ٹھیک سمجھتے تھے کہ الف میں بھی لام کا ہی سارا کام ہے ! آپ سے رہا نہ گیا ، کہے ، “اُف”! جی صاحب ! الف اُلجھنیں ، لام اُلجھنیں ! دونوں “کام” کی اُلجھنیں تھیں ! آج “اُلجھن” بیچتے ہیں ! لام سے لے لیجیے !

علی الصبح، لام سے ہی لیٹے تھے اور پہر ، دو پہر کو بھی ! بتا دیں کہ لیٹنا بھی مراقبہ ہے ! لام سے لیٹنا، میم کا مراقبہ ہے صاحب! لام سے لیٹنا ، الف سے لیٹنا ، ایک سا تھا ! قاری صاحب ؔ نے کہا پڑھو بیٹا، پہلا کلمہ ! آہ صاحب! کلمہ بھی لام سے ہی تھا۔ وہاں باجی بُؔشریٰ کے یہاں تختی چل رہی ہے ، اور یہاں قائدہ!

کچھ کہنے سُننے کا بھلا کیا فائدہ! یہ جانتے ہیں مگر سیکھ رہے ہیں ! لام آدمی ، الف ہونے کے لیے قاف سیکھ رہا ہے ! کہ سُن رکھا تھا ، قاف رہنے والا، برابر الف ہوتا ہے ! اُسے کاف گاف کے مسائل نہیں رہتے ! آپ سمجھ گئے کہ مسائل بھی “لام” سے ہی ہیں !

تو عرض کر رہے تھے کہ لام سے لیٹے تھے کہ مصطفیٰ زیدیؔ صاحب کا قطعہ یاد آ گیا ؛

؎کسی موسم کی فقیروں کو ضرورت نہ رہی

آگ بھی ابر بھی طوفان بھی “ساغر” سے اٹھا

تو بس پھر کیا تھا ، ہم “ساغر” بارے سوچنے لگے ۔ اور جا بیٹھے ، ساغر صدیقیؔ صاحب کے چوبارے پر ! آپ جان گئے کہ اگر بنجارہ ؔ بیٹھا ہوگا تو “ب” سے ہی بیٹھا ہوگا! ب سے بیٹھا بنجارہ، بڑی بے چارگی سے اپنے داتا ؔ کو دیکھ رہا تھا۔ جی ، جی! ، ب سے ہی دیکھ رہا تھا! کہ دہلیؔ سے مرزا ؔنے پُکارا؛

؎ اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

“ساغرِ” جم سے مرا جام سفال اچھا ہے

ہم جان گئے ، کہ اگر فرمائے ہیں ، تو جامِ سفال بھی لام سے ہی ہوگا! لام سے ہونا ، اچھے سے ہونا تھا صاحب! اور لام سے لیٹا ایسے لیٹنا تھا کہ عمرِ گریزاں پر لگی چوٹوں میں آدمی چیخے نہ پکارے ! نہ کوئی صدا دے ! اور مصیبتوں میں اگر کبھی سسکے ، تو لام سے ہی سسکے !

چالیس کی طوالت کا اندازہ لام سے ہی کر رہے تھے! لام کو طُول نہ دیجیے ! کوئی اور کام کیجیے !

لام شُد!

(بَون کا بنجارہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے