Skip to content

نشست 43! صورتِ حال کا ٹیکا!

صورتِ حال تو ”یہ“ ہے لیکن حالتِ زار پر بھی توجہ دی جائے۔ حالت ِ حال یہی ہے کہ ہال میں موجود ہیں! صاحب ! اب کہ خود کو ایچؔی سن کالج میں پاتے ہیں، ہمرے ننھے سے دماغ میں “ہال” کا لفظ آتے ہی ایچی سَؔن کا وہی ہال آجاتا ہے، جہاں سب بچے اپنے والدین اور سرپرستوں کے ساتھ موجود تھے، ہم گم چکے تھے صاحب! ہم وہی کھڑے دیکھ رہے تھے ، قیامت کا منظر! شور و غل، غل و غلو! ہاو ھُو! پوچھا کیا کیا جا رہا ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟ فرمایا “داخلہ” ہو رہا ہے! داخلے کے لیے “امتحان” ہوگا! ہم نے ہر ہر امتحان کو حسابِ محشر ہی سمجھا صاحب! کیا ہے کہ ہال میں ہیں، حال میں ہی ہیں! حال آں کہ کسی بھی ہال میں ہو سکتے تھے، لیکن یہی ہال تھا! اِسی میں کھڑے اپنے داخلے اور خارجے کا حساب باندھ رہے تھے! بتایا گیا، سادات کا داخلہ ہو جاتا ہے، آسان ہے! ہم پوچھے کیسے؟ فرمایا کہ وہ “آل” ہیں، تم، تم تو بس “ہال” میں ہو! کہا جی صاحب، آل تو آل ہے، لیکن آل کا آج کیا حال ہے؟ آج تو سبھی ہال میں ہیں، آج کچھ بھی ہو سکتا ہے! اور جو بھی ہو وہی حال ہے!

حال، برا حال ہے! لیکن ہال تو بڑا ہے! اُسی بڑے ہال میں ہم بُرے حال میں تھے صاحب! لیکن ہم گزر گئے اُس معرکے سے بھی! کہ حال جو بھی ہو، اُس میں “حل” تلاش ضرور کرنا! ہم تلاش پر کیا نکلے، بہت دور چلے آئے ، معلوم ہوا کہ “ہ” اور “ح” میں بھی فرق ہے، ایک کی تان بیٹھے تو دوسری خفا ہو جاتی ہے! جدید پاکستانی. . . . . ، ارے خدایا کیا کہنے لگا تھا، جدید، اور پاکستانی! پاکستانی اور جدید! واہ، اب نئی پیکنگ میں بھی دستیاب ہے! جی! ایک شہر کے “عمران میڈکل اسٹور “ پر داخل ہوتا ہوں تو کیا دیکھا ہوں ، ایک صاحب کا بچہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا! سمجھے کوئی ٹیکا لگا ہو گا، کوئی دوا پلائی گئی ہو گی! لیکن بچے کے ابا نے کہا کہ ہم نے “کنڈوم” خریدے تھے اور اب یہ بھی ضد کرنے لگا ہے کہ “مجھے بھی یہی “چوِنگم” کھانی ہے! بولے ہم سمجھائے بھی ہیں کہ بیٹا یہ آپ کے کھانے والی نہیں ہے! ہم نے عرض کی ، کہ اگر صحیح وقت پر لگاتے تو ایسی صورتِ حال کا سامنا ہی نہ کرنا پڑتا! ہائے صاحب! ٹیکا تو لگا تھا، اُسی لگے ٹیکے سے عمر بھر آدمی روتا ہے صاحب! ٹیکے سے یاد آیا، ایک نو بالغ ہم سے کہنے لگا” سرکار! ٹیکا لگانے کا بہت دل کرتا ہے” ، نوبالغ تھا اور کنوارہ بھی! ہم نے پوچھا، کون سا ٹیکا؟ بولا کہ وہی جو آگے لگا ہوتا ہے.. ہائے صاحب! ہم نے جھٹ سے کہا کہ آگے والا ٹیکا پیچھے سے ہی لگتا ہے! بولا میں سمجھا نہیں، پیچھے تو کوئی ٹیکا نہیں! حال آں کہ صاحب ، ٹیکا پیچھے ہی تھا، پیچھے ہی لگا ہوا تھا صاحب! سبھی کو لگا تھا صاحب!

ہونے کا ٹیکا! ڈاکٹر مدثر نے کہا، چلو کچھ نہیں ہوتا لگوا لو!

ہم نے کہا جس کو پہلے ہی لگا ہو، اُسے مزید لگوانے کی کیا ضرورت ہے!

یا دیجیے ہم خود ہی لگا لیتے ہیں!

صورتِ حال کا ٹیکا!

(بَون کا بنجارہ )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے