ہم کہے ، آہ ! صاحب! آپ کہے واہ! صاحب!
تو فرمایا کہ جب آہیں بڑھ جائیں تو ، واہ ، بن جاتی ہے ! جونؔ فرمائے ؎
ایک ناٹک ہے زندگی جس میں
آہ کی جائے ، واہ جی جائے
کیجیے ناں صاحب ! لیجیے ناں صاحب! آپ کہے تو ہم آہیں بھرنے لگے ۔ جی ایک آہ، چالیس آہوں سے بنی تھی! جی ، آہٹوں سے بنی تھی اور دستکوں سے بھی ! “آہٹ” اور “دستک” میں فرق کیسے کر جاتے ! آپ ، آتے جاتے! آتے ہی جاتے! ہم نے سنا تھا کہ آدمی ایک قدم اُٹھائے، تو آپ دس قدم بھرتے ہیں !
جی صاحب! آپ کا ہی دَم بھرتے ہیں ! خالی دَم ! ہم سے کہاں بھرتا تھا صاحب! ؟ دم کا بھرنا ایسے ہی ہے جیسے سِسیفسؔ کا ٹیلے پر چڑھنا! لیکن کیا ہے کہ بھرتے ہیں ، جی آپ کا دَم! قدم قدم! جی ، ایک قدم کے دس قدم ہیں! آہیں ، واہوں کے ساتھ پڑی ہیں ! آہٹوں میں دستکیں ہیں اور دستکوں میں آہٹیں بھی ! آپ سمجھے ہی نہیں ! کہے چُپ!! ہم “چاپ” ہو گئے تھے صاحب!
بقلم خود “آپ “ ہو گئے تھے!
اب کہ “نور کا تڑکا” لگا تھا! جی صاحب ! “تڑکا” ہی لگایا تھا آپ نے نور کا! یعنی صبح کا وقت ہے ! طلوعِ سحر دیکھتے ہیں ! جس فقیر کو شبِ ماہتاب اور طلوعِ آفتاب کا چسکا پڑ جائے ! وہ آپ سے کیوں نہ سرگوشیاں کرے! اب کہ تڑکے کے شوقین تھے! اماں کو کہے کہ ماں جی دال کو “تڑکا” لگا دیں ! وہ کہنے لگیں ، بیٹا، پہلے ہی کا لگا ہوا تھا!! ہم سمجھ گئے کہ کسی “تڑکے” پر ایک اور “تڑکا” نہیں ملتا! پھر ہمارے پاس تڑکے اور تڑپے میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے، تڑکنا اور تڑپنا ، اجسام کے مابین دو حالتیں ہی تھیں ! کوئی “تڑک” رہا تھا تو کوئی “تڑپ” رہا تھا! یہی تڑپ ، تڑک، دل کی دھڑک تھی! دھڑک دھڑک ، دھڑک تھی صاحب! دستک تھی صاحب! آپ کہے چُپ چاپ!!!!
جی ہم لکھتے گئے “ جاپ” ہی جاپ! جپتے رہے، آپ کے خاموش ناموں کو! آپ کی چاپ کا جاپ جاری تھا صاحب! ہر چاپ کا برابر ناپ تھا! آپ پوچھے ناپ کتنا تھا؟ ہم کہے پورے چالیس کا تھا!
ہائے صاحب! نہ پوچھیے چالیس کا ناپا کیسا ہوتا ہے!
چالیس حافظ!
(بَون کا بنجارہ )