
جی صاحب اب کہ زبانِ معلیٰ کے عشق میں گرفتار ہیں ..
جی صاحب گرفتار ہیں ! جی ، کٹہرے میں کھڑے ہیں اور جملہ زبانانِ زمن نے ہنگامہ مچا رکھا ہے! اُس ہنگامے میں ، ہمارا جرم ، جرم تو تھا ہی ، جرمِ وفا بھی تھا! صاحب، “عطا “آپ کی تھی، اور “ وفا” ہم کرنے کا عزم کیے ہیں ! وفا کے اظہار کو “ادا” چاہیے! “ادا “آپ کی ہی تھی، ادا ؔ ، اُردو میں تھی صاحب! آپ سمجھ گئے کہ ادا ہے تو جانِ ادا بھی ہو گی! اور اگر جانِ ادا ہے تو اَمراوجاؔن ادا بھی ہو گی؟
ہم کہے والی جناب تھیں! سبھی “تھیں” ! مگر آج نہیں” ہیں” ! آج نایاب ہیں ! آج قحط الرجان تو ہے ہی ، قحط النسا بھی ہے ! جی ، اجسام میں ذکر و اُنثیٰ کی مندی چل رہی ہے ! صاحب جس کسی کو کرداروں سے عشق ہو جائے ، اور کردار بھی زبانِ معلیٰ کے ہوں ، تو وہ نفسِ عتیق کیا کرے؟ آج بھی یہی سوال زیرِ غور تھا تو احباب جو قلبِ سلیم رکھتے تھے ، ہمارے لیے ڈیجٹل دکان کا سامان کیے ہیں ، کہ آئیے ، نئے دور ہیں ، ذرا چیخ کر دکھائیے ! تو ہم چیخ رہے ہیں صاحب! سُن لیجیے !
کہتے ہیں کہ علم کے معبد میں جھگڑا صرف زبانوں کا ہے ! اور زمانوں سے ہے چل رہا ہے ، میں کہ فردِ تنہا، اِس آرزو میں کاندھا دیے ہوں ، کہ “وفا” کیے ہوں ! غالب بلبلائے
؎ ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے “وفا” کیا ہے
دیکھیے ناں صاحب! “قضا” کا سبھی جانتے تھے، اور “ادا” تو برقرار تھی، لیکن کیا ہے کہ وفا کا بوجھ ، ہم پر صلیبِ ناؔصری کا سا معلوم پڑا۔ وفا کے بوجھ تلے کتنے اذہان دب گئے ! دب گئے تھے صاحب اور کچھ دُبک گئے تھے ! کچھ نے ہوش کی راہ لی ! اور لگے بولنے ویلایتی زبانیں ! ہم یہیں رہے صاحب! کھڑے ، دیکھتے، رہے ! وفا کے جرم میں کھڑا محرمِ با صفا ! با وفا تھا، تنہا کھڑا تھا، الف کھڑا تھا!
کیا دیکھتا ہوں کہ علم کے معبد میں عبودی زبانیں سجدہ ریز ہیں ! جی ، ہماری زبانیں ! ہم کٹہرے میں ہیں اور “گرفتار” ہیں ! صاحب، بار،فتار تھے! بار دَر بار تھے! جی ، دربار بھی تھے ! آپ کہے دربار ہی ہیں ! منصف کون ہے، کہاں ہے؟ سب چِلّائے ! جی کوئی بم بھی چلائے ! کچھ لفظوں کا سودا کیے ! کوئی دغا کیے ! ہم ہیں کہ “وفا” کیے ہیں ! جی آپ ہی سے دعا کیے ہیں ! کہ مان جائیے ! آ جائیے ! منصف آپ ہی ہیں ! اگر ہیں ! وہاں صرف خاموشی لکھا تھا! یک حرفی میں کچھ نہیں تھا۔ منصف کا ایک نام “خاموشی” ہے !
تو عرض کیے تھے کہ لکھنا اپنے آپ میں ایک عبادت ہے ! اور عبد کو عبادت کا کرنا واجب ہے صاحب! کہ “ واجب” بھی ب سے ہی تھا! آپ نے سینے سے لگالیا! اور اتنا پیا ر کیا! جی !!! آپ پوچھے کتنا؟ ہم ، کہہ ہی نہ سکے “اتنا” !! بس صاحب بچپن سے اب تک “اتنے” کہ “کتنے” ہونے کو ہی سمجھ رہا ہوں، جی qualitative analysis کیا جا رہا ہے ! آپ تشریف رکھیے ! جی آپ بھی آرام سے بیٹھ جائیے ! گاڑی سب کو ملے گی .
اب فیصلہ ہوگا! اگر قیسؔ و اداؔ ہو گئے ہیں تو ہم آپ باوفا کیوں نہیں ہونگے؟ ہونگے صاحب! اگر “ہو گئے” ہیں تو “ہونگے” بھی ہو جائیں گے! جی آپ بھی فقؔیر کا ساتھ دیجیے ! رابطہ کیجیے ! آپ پوچھے ، یہ فقیر کیسے ہیں؟ ہم کہے کہ صاحب ! لکیر کے فقیر ہیں ! جی حروف کی اُنہی لکیروں کے جو پیشانیوں پر لکھی گئی ہیں ! یعنی زبان کے فقیر ہیں !
فقیر کی دستگیری کیجیے ! کس بھاو لیجیے!!
ڈیجٹل دنیا میں موجود ہماری دکان کا ایڈریس نوٹ کر لیجیے !