واہ صاحب! کیا کہنے آپ کے!
فرمایا کہ چِلّے ، مراقبے اور مکاشفے کے لیے ضروری نہیں کہ آدمی کی سوا گز داڑھی ہو!
گھیانی ، یک نظری میں سلسلہ تمام کر دیتا ہے! کوئی ایسا کام کر دیتا ہے! بات “جھپک” کی ہی ہے ، صاحب!
علّاؔمہ نے فرمایا :
؎ تیرے دل پہ اگر نہ ہو نزولِ کتاب
تیرا قیام بھی حجاب تیرا سجود بھی حجاب
ہم جگمگائے اور کہنے لگے “حجاب” ہے، تو اِس میں مضائقہ کیا ہے؟ مسئلہ کیا ہے؟ حجاب تو اچھا ہے، مشروع بھی ہے، تو رہنے دیجے۔ ہر ڈھانپا، سَتر کا ڈھانپا ہے! رہنے دیجیے ! واہ، آپ “خُوب “کہے! ہم لَجّائے کہ ہم پر حروف اُترتے ہیں ، وہی سنبھال رہے ہیں ، خدا جانے یہ کتاب کب مکمل ہو گی؟ حجاب کب تک ڈھکا رہے گا! خدا جانے! ؎ اب تو وقت بھی لگا ہے سُستانے! اکثر سوچتا ہوں کہ کیا شاعر حضرات کو اپنے لفظوں کے آسیب کی کچھ خبر ہوگی؟ یا یُوں ہی کہے چلے جاتے ہیں! ہم کیسے “قافیہ” سے “رَدیف” ملاتے ہیں! کہاں ملاتے! کس سے ملاتے؟ کیوں مل آتے؟ مل کر کوئی “واپس” کیوں کر آئے؟ تو صاحب عرض کر رہا تھا کہ یہ “چل کیا رہا ہے”؟
بی سی ! ہائے صاحب! ہم کہے “بی سی” آپ نے تبسم کیا، فرمائے، “ائے بی سی، کتھے گئی سی! واہ صاحب ! اب کہ خود کو خالہ رضوانہ کے پاس مدعو پاتے ہیں ، کیا ہے کہ دعوت ہے ، کیا ہے کہ خاص ہے! دعوتِ خاص ! ہر خاص و عام کے لیے ہی دیکھی ہم نے! ہر دعوت نامہ “خاص اور بالخصوص “ کے ساتھ لکھا ہے۔ جب پہنچے تو ہر” خاص “ میں ایک” عام” شخص ہی پایا ! ایک انتہائی عام سا شخص! یعنی مجھ سا صاحبِ نوا! آپ کہے، “ چلیے تو سہی”! ہم سمجھے کہ فرمائے ہیں ، “چلیے تو صحیح”! تو صاحب چلتے ہیں ! “خالہ رضوانہ” ، کے نام پر تو آپ چونکے ، “آنٹی روضی”، کہتے تو آپ ٹھہرتے! کہ “قصہ” کیا ہے؟ ہم عرض کیے ، کہ قصہ ، ناموں کا ہی ہے! حروف تک کا بوجھ ہم سے اُٹھتا نہیں اور ناموں کی سیل لگاتے ہیں ! جی ناموں کی سیل ! ایسی تھی صاحب، کہ ایک ہی نام کئی رنگوں میں دستیاب تھا۔ کالی بھی “آنٹی روضی” ہو سکتی ہیں اور بھوری بھی. . . جی، گندمی رنگ میں ایک “ خالہ رضوانہ” دے دیجیے ! کیا کہتے ، کیا کرتے ! مارکیٹ میں اتنا مَندہ چل رہا ہے ! کبھی سوچتے کہ کیا کریں ؟ اگر یہی مال ہے ، تو مالا مال ہو جائیں!؟ ہر ہر رنگ میں ،”پیٹرؔ “ ، دستیاب ہے ، اور ہر ہر سائز کا “داود و دانیال” بھی ہے ! پھر کہتے ہیں کہ جناب احمد رفؔیق اختر، کہ ہمارے مشائخ میں سے ہیں ! احمد کے “رفیق” ہیں اور ہمارے بھی “اختر” ٹھہرے ! مگر کیا ہے کہ کہیں غلطی فرما گئے ہیں ! پاسِ “ادب” ہے ورنہ، کیا بات “کر” نہیں آتی!
غالؔب نے چُسکی بھری کہا ،
؎ آتی ہے ، پر نہیں آتی!
علامہ فرمائے ،
؎ پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
ہم گھبرا گئے کہ ، یہ اتنے “پر” کہاں سے آ گئے ! پر ہی پر تھے صاحب ! ہم کھوجنے لگے تو فرمایا کہ جبرئیلِ امیں کے سترّ ہزار “پَر” ہیں ! ہم جان گئے کہ غالؔب و اقباؔل کے پاس بھی “پر” ہی تھے ! پر ہی پر ! واہ صاحب ! آپ دیکھ لیے کہ ، آج کچھ پرے سے جا بیٹھیں ہیں ! اتنا پرے کیوں کر گئے ! سامنے آ جاتے !!؟ آپ سامنے آ ئے بھی تو “پر” ہی دیکھے! پر ہی پر! پروں کا پرا! پیارا پرا !
ایسے میں ساغرؔ سِسکے،
؎ چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں
ہم سمجھے، کہے ہیں ، چھپائے دل میں پروں کا جہان بیٹھے ہیں ، ابھی بیٹھے کہاں تھے کہ اُٹھ آئے ہیں ، جی پر اُٹھائے بیٹھے ہیں ، ہم پوچھے کہ پروں کا ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ “کیا “ معنی رکھتا ہے !!! آپ سمجھے ہی نہیں، ہم کچھ کہے ہی نہیں !
(بَون کا بنجارہ)